تسی گیم شروع کرو اللہ وارث ہے

منگل 27 اگست 2024
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ بات ہے اپریل دو ہزار پندرہ کی۔ اسلام آباد میں قومی ہاکی ٹیم کا تربیتی کیمپ لگنا تھا تاکہ وہ دو ماہ بعد نیدر لینڈز  میں منعقد ہونے والے آخری کوالیفائنگ راؤنڈ میں شرکت کی تیاری کر سکے۔ اس راؤنڈ میں کامیابی حاصل کر کے ہی دو ہزار سولہ کے ریو اولمپکس میں شرکت کا راستہ مل سکتا تھا مگر ہاکی فیڈریشن کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ کھلاڑیوں کو کھانے پینے کے لیے ڈیلی الاؤنس دے سکے۔ چنانچہ یہ تربیتی کیمپ ملتوی کر دیا گیا۔

جیسے ہی یہ خبر دلی پہنچی تو ٹائمز آف انڈیا کے چار اپریل دو ہزار پندرہ کے شمارے میں  خبر شائع ہوئی کہ ہاکی انڈیا کے جنرل سیکرٹری نے پاکستانی ہم منصب رانا مجاہد کو خط لکھا ہے کہ ہم ٹریننگ کیمپ کے اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہیں تاکہ بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی ریو اولمپکس میں شرکت کر سکے۔ مگر حسبِ توقع پاکستان ہاکی فیڈریشن نے ایسے کسی امکان کو مسترد کر دیا۔

تب سے اب تک پاکستان ہاکی ٹیم کسی بھی اولمپک گیمز کے لیے کوالیفائی نہیں کر سکی۔

انیس سو اکہتر سے جاری ہاکی ورلڈ کپ پاکستان کی ایجاد تھی۔شروع کے لگا تار آٹھ میں سے چار ورلڈ کپ پاکستان نے اٹھائے۔ پھر یہ حال ہوا کہ دو ہزار دس کے ورلڈ کپ میں شریک بارہ ٹیموں میں پاکستان آخری نمبر پر تھا۔ دو ہزار چودہ اور تئیس کے ورلڈ کپ کے لیے وہ کوالیفائی ہی نہ کر سکا اور دو ہزار اٹھارہ کے ورلڈ کپ میں شامل سولہ ٹیموں میں پاکستان بارہویں نمبر پر رہا۔

کہاں وہ وقت بھی تھا کہ پاکستان کے سر پر ایک ساتھ ورلڈ کپ، اولمپکس اور چیمپینز ٹرافی کے تین تاج دھرے تھے۔ کہاں یہ وقت کہ پاکستان ہاکی کی عالمی رینکنگ میں سولہویں پائیدان پر کھڑا ہے۔کیا یہ وہی پاکستان ہے جو انیس سو ساٹھ سے بانوے تک ہاکی کی سپر پاور ہونے کے سبب ٹاپ تھری میں رہنے کا عادی تھا؟

لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں آخر کس کی نظر لگ گئی؟ کسی کی نہیں لگی۔ بس اتنا ہے کہ ہاکی فیڈریشن اور سلیکٹرز بیسویں صدی میں جی رہے ہیں جبکہ عالمی ہاکی اکیسویں صدی کی پہلی چوتھائی سے بھی آگے نکل گئی ہے۔کل تک یہ آرٹ تھا۔آج ہاکی ایک سائنس ہے۔کبھی یہ گوجرہ اور کراچی کے غریب اور متوسط بچوں کی دسترس میں تھی۔آج ریاستی مدد  اور نجی اسپانسر شپس کے بغیر اس کا آگے بڑھنا پہلے سے زیادہ محال ہے۔کہنے کو ہاکی آج بھی پاکستان کا قومی کھیل ہے مگر ہم نے اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا ہے جو قومی شاعر، قومی پھول اور قومی جانور کے ساتھ کیا۔

ایک ایک کر کے سارے انڈے کرکٹ کی ٹوکری میں رکھ دئیے گئے اور آج کے اصلاح الدینوں، حسن سرداروں اور  اتھلیٹکس کے ارشد ندیموں، باکسروں اور ویٹ لفٹروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ اپنے بل بوتے پر سونا یا چاندی یا تانبہ جیت لاؤ تو ہم بھی تمہارے ساتھ ناچیں گے اور ہار جاؤ تو اکیلے جوتیاں چٹخاتے گھومو۔

عام طور پر صدر یا وزیرِ اعظم  بہ اعتبارِ عہدہ کرکٹ اور ہاکی کا سرپرستِ اعلیٰ ہوتا ہے۔ کرکٹ چونکہ کماؤ پوت ہے لہذا سرپرست کو کچھ زیادہ ہی پیارا ہے۔

ہاکی کو کہاں لے جانا ہے، حکمتِ عملی پانچ برس کی ہے یا پانچ ماہ کی، سہولتیں کیسے آئیں گی، پروفیشنلزم کیا بلا ہے، کھلاڑیوں کا کنٹریکٹ اکیسویں صدی کے مطابق کیسے کیا جائے، کوچنگ کا معیار اور کوچ کی معیاد کتنی ہونی چاہیے، کم ازکم بجٹ کیا ہونا چاہیے۔ اندرون و بیرون ملک میچوں اور ٹورنامنٹس کا کیلنڈر کون بنائے گا۔ ان میں شرکت کے لیے کون کون اسپانسرشپ دے گا۔ سب سوالوں  کا ایک ہی جواب ہے ’تسی گیم شروع کرو باقی اللہ وارث ہے۔‘

ہاکی تب تک ہیرو تھی جب تک اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے میدانوں میں  زندہ تھی۔ تعلیمی اداروں میں اسپورٹس کوٹا تھا۔ مستحق ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کے لیے مالی وظائف تھے۔ ہر تحصیل اور ضلع میں ہاکی کلب تھے۔ سب کے آپس میں باقاعدگی سے ٹورنامنٹ ہوتے تھے۔ اچھے کھلاڑی خود بخود ابھرتے چلے جاتے تھے۔سرکاری و نجی اداروں میں ٹیلنٹ کو ملازمت مل جاتی تھی تاکہ وہ دال روٹی کے چکر سے نکل کے صرف کھیل نکھارنے پر توجہ دے۔

پھر یوں ہوا کہ ہر کھلے گراؤنڈ کو بلڈرز یا قبضہ گروپ کی نظر لگتی چلی گئی۔سرکاری تعلیمی اداروں کا اپنا بجٹ پتلا ہوتا چلا گیا تو اسپورٹس کوٹا بھی سکڑ گیا۔ تعلیم پر جب نجی شعبہ چھایا تو حوصلہ افزائی کو کمرشلائزیشن کھا گئی۔ مرغی خانوں کی طرح ہزار ہزار گز کی کوٹھی میں بھی کالج حتیٰ کہ یونیورسٹی کھلنے لگی۔یعنی اسپورٹس گراؤنڈ یا جمنازیم کی گنجائش ہی ختم ہو گئی۔کوویڈ کے نتیجے میں معیشت کا حال پتلا ہونے لگا تو  نجی و سرکاری اداروں میں صرف اسپورٹس کے بل پر ملازمت ملنا بھی دشوار تر ہوتا چلا گیا۔

آج کل ایک عام ہاکی چھ سے آٹھ ہزار روپے میں اور پروفیشنل ہاکی بیس ہزار میں اور معیاری جوتا تیس سے پچاس ہزار روپے میں آتا ہے۔ ایک متوسط کنبہ جس کی ماہانہ آمدنی پچاس ہزار روپے ہو، اگر اس کنبے میں کوئی جنونی بچہ ہاکی کھیلنا بھی چاہے تو کیسے سامان خریدے گا اور کہاں پریکٹس کرے۔

جس ملک کی ہاکی فیڈریشن کا سالانہ بجٹ ہی چالیس لاکھ روپے ہو۔ اس بجٹ میں تنخواہیں دینے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ وہ فیڈریشن آٹھ سے دس کروڑ روپے کا آسٹروٹرف کہاں سے منگوائے گی اور کہاں پر لگائے گی۔کیونکہ ایک بھی ہاکی اسٹیڈیم  فیڈریشن کی مستقل دسترس میں نہیں۔ یہ فیڈریشن کسی بھی بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں ہاکی اسکواڈ بھیجنے کے لیے ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے کیسے پیدا کرے گی۔

یہ سب سرمایہ بھی جمع ہو سکتا ہے لیکن تب جب خود ہاکی فیڈریشن کے اندر جاری گندی سیاست صاف ہو اور عہدوں پر تقرری چھینا جھپٹی کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر ہو۔اور تب بھی غیر معینہ مدت کے لیے نہ ہو۔تاکہ ایک طویل المیعاد  حکمتِ عملی بن سکے اور اس پر عمل کے لیے وسائل بھی مسلسل ہوں۔

ایسا نہیں کہ یہ سب محیرالعقول اقدامات ہیں۔پاکستان ہاکی کے سنہرے دور میں یہ سب معمول کی باتیں تھیں۔اگر آج  یہ سب کچھ کرنے کا تصور پہاڑ جیسا لگ رہا ہے تو پھر  کسی اور ارشد ندیم کا انتظار کیجیے جو اپنے بل پر جب جیت جائے تو سب اس کی کامیابی پر نعرے لگاتے ہوئے اپنا اپنا لیموں نچوڑنے پہنچ جائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp