کہنے کو عام لیکن اصل میں خاص آدمیوں کا تذکرہ

جمعرات 29 اگست 2024
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب سے عربی کے عظیم شاعر امرؤالقیس سے لے کر نامی گرامی  گاما پہلوان کے بارے میں خوبصورت گفتگو میں نے سنی ہے۔ ان دو کے بیچ مشاہیر کی لمبی قطار ہے جن کے بارے میں نادر معلومات کا سرمایہ میں نے ان سے حاصل کیا ہے۔ ان دنوں وہ مولانا الطاف حسین حالی پر کام کررہے ہیں تو ان سے متعلق بھی خورشید صاحب سے بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔لیکن آج میں مشاہیر نہیں چند عام آدمیوں کے بارے میں ان کی باتیں عام کرنا چاہتا ہوں۔

خورشید رضوی صاحب بتاتے ہیں کہ سمرسٹ ماہم نے اپنی کتاب ‘ دی سمنگ اپ’ میں لکھا ہے کہ اسے نامور لوگوں کے بجائے عام آدمی سے  ملنے میں زیادہ دلچسپی رہی کیونکہ بڑے لوگ دوسروں سے ملنے جلنے کا ایسا گر سیکھ لیتے ہیں جس سے ان کی  حقیقی شخصیت پس پردہ  رہتی ہے جبکہ عام آدمی کھلی کتاب کی مانند ہوتا ہے۔

سمرسٹ ماہم کی کتاب میں شامل یہ قول بھی میں نے خورشید صاحب سے ہی سن رکھا ہے :

I have been more concerned with the obscure than with the famous. They are more often themselves.

 خورشیدصاحب زندگی میں جن عام لوگوں سے متاثر ہوئے، ان میں سے چند ہستیوں کا تذکرہ مختلف نشستوں میں سننے کا موقع میسر آیا۔ اس سلسلے کی پہلی شخصیت محمد اسماعیل ہیں جنہوں نے مدتوں اورینٹل کالج کے باہر سڑک پر  پھل فروٹ بیچ کر رزق کمایا۔ خورشید صاحب ان کے بڑے مداح ہیں۔ دو ڈھائی سال پہلے کی بات ہے، باتوں باتوں میں ان محترم کا ذکر نکل آیا۔ خورشید صاحب نے کہا کہ اس طرف سے گزر ہو تو ان کی خیر خبر معلوم کرنا۔ میں نے چند دن بعد موٹر سائیکل کا رخ اورینٹل کالج کی طرف موڑ دیا۔ خورشید صاحب نے ٹھکانے کی نشاندہی کردی تھی۔ چہرے بشرے کا بتا دیا تھا۔ اس لیے میں ٹھیک مقام اور بندے تک پہنچ گیا۔ بابا جی سے سلام دعا کی۔ ان کی خیریت دریافت کی۔ ورود مسعود کا عندیہ ظاہر کیا۔پھل کھایا۔ ہلکی پھلکی گپ شپ کی۔ بتایا کہ میرے محترم استاد آپ کے بڑے قدر دان ہیں اور انہی کی تحریک پر میں یہاں آیا ہوں۔ یہ جان کر  بڑے خوش ہوئے۔ میں نے ان کی اجازت سے چند تصاویر اتاریں اور خورشید صاحب کو واٹس ایپ پر بھیج دیں جنہیں دیکھ کر انہیں اسماعیل صاحب کی صحت و سلامتی کی طرف سے اطمینان ہوا۔ مجھے اپنی سرگرمی  کی داد بھی ملی کیونکہ یہ سخت گرمی کے دن تھے۔

اس کے بعد اسماعیل صاحب سے میری چند اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ رواں سال جنوری میں، میں  نے ان کے اکرام کی چھوٹی سی کوشش کی۔ فارسی زبان و ادب کے استاد اور اورینٹل کالج کے پرنسپل پروفیسر معین نظامی صاحب سے استدعا کی کہ کبھی اسماعیل  صاحب کو اپنے دفتر بلا کر آدر دیں، ان کا مان بڑھائیں۔چند دن بعد میری بات پر عمل درآمد ہو گیا۔ نظامی صاحب نے محنت کش کو اورینٹل کالج بلایا۔خاطر تواضع کی۔زیادہ ان کی سنی کچھ اپنی کہی۔ تحائف دے کر انہیں رخصت کیا۔ یہ بہت اہم بات تھی۔ کسی کو عزت دینے سے بڑھ کر  کچھ نہیں ہوتا۔ اس تاریخی ملاقات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس کے وسیلے سے نظامی صاحب کے قلم سے محمد اسماعیل کا وہ خوبصورت خاکہ تخلیق ہوا جو عام انسانوں پر لکھے مولوی عبدالحق کے خاکے ‘نام دیو مالی’ کی روایت  سے جا ملتا ہے۔ ہمارے زمانے میں اس روایت کے امین فارسی کے ہی استاد مظہر محمود شیرانی تھے جن کی عام ہستیوں کے بارے میں خاکوں کی کتاب ’بے نشانوں کا نشاں‘ میری پسندیدہ کتابوں میں شامل ہے۔

معین نظامی صاحب کے خاکے ‘ محمد اسماعیل پھل فروش ‘ کا ابتدائی پیرا گراف ملاحظہ ہو:

’محمداسماعیل صاحب کو میں نے سال ہا سال دیکھا۔ خوش دلی، قناعت، اور دیانت داری سے رزقِ حلال کماتے ہوئے۔ مختلف موسموں، وقتوں اور حالتوں میں۔کم و بیش ایک ہی وضع قطع اور انداز میں۔جی سی یونیورسٹی لاہور سے بانو بازار، انارکلی اور اورینٹل کالج کی طرف جاتے ہوئے، البیرونی روڈ پر دائیں جانب واقع ڈاک خانے کے آس پاس، تازہ پھلوں کا سادہ سا چھابڑا لگائے۔ جن چند خوش نصیب چہروں کے ساتھ دلی اطمینان اور اندرونی آسودگی کا مستقل ایم او یو دیکھا، ان میں ایک نمایاں چہرہ محمد اسماعیل صاحب کا بھی ہے جس پر اب غبارِ ایام کے نشانات بڑھ چلے ہیں۔’

ایک دن میں نے خورشید صاحب سے استفسار کیا کہ محمد اسماعیل صاحب میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ ان کی شخصیت کا گہرا نقش ان کے ذہن میں جما ہوا ہے:

’شانت ہے وہ۔اصل چیز تو شانتی ہے۔ بڑا مطمئن آدمی ہے۔اپنے آپ میں گم۔ میں اسے بڑے غور سے کبھی دیکھ کر سوچتا ہوں کہ یہ آدمی تمام تر تبدیلیوں میں بھی تبدیل نہیں ہوا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ آپ دیکھیں وہ سارا علاقہ، اس کا کلچر، اس کا ماحول تبدیل ہو گیا۔ یہ آدمی وہیں کا وہیں ہے۔ وہ اس ٹائم کا آدمی نہیں ہے۔ اس نے ٹائم کو ڈیفائی کیا ہے۔ یہ بہت حیرت کی بات ہے۔ ٹائم میں سب لوگ بہہ گئے۔ چلے گئے۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو کلچرل سمبل بن جاتے ہیں۔ وہ باقاعدہ پہلوان ٹائپ ہے۔ کیلا بھی چھیل چھال کر کھانے کے لیے دیتا ہے۔ ساتھ میں بتاتا ہے کہ فضول چیزوں کے  بجائے پھل کھایا کرو۔ یہ بات اس کی ٹھیک ہے۔‘

کیسی پتے کی باتیں ہیں۔ اب اسماعیل صاحب کے قصے سے آگے بڑھتے ہیں اور رضوی صاحب کی وساطت سے ایک اور اعلیٰ انسان سے ملتے ہیں۔ پرانی انارکلی سے  مال روڈ کی طرف آئیں تو بائیں طرف ٹولنٹن مارکیٹ کی نکڑ ہے، اس کے دوسری طرف کے موڑ پر ایک صاحب مسواکیں بیچتے تھے۔ تیس چالیس سال خورشید صاحب نے انہیں وہاں براجمان پایا۔ ان کی یاد بھی ذہن کے نہاں خانے میں کہیں محفوظ تھی جسے نکال کر ہمارے سامنے بیان کیا:

’اس کے پاس طرح طرح کی مسواکیں ہوتی تھیں۔ وہ گردو پیش سے الگ۔بے نیاز۔ اپنے آپ میں مطمئن۔ اس کی کام میں دلچسپی اور توانائی بتاتی تھی کہ وہ کام سے مطمئن ہے۔ ایک تپڑ سا بچھا کر بیٹھا رہتا۔ دو چھوٹے چھوٹے سٹول جن پر مسواکیں رکھی ہوتی تھیں۔ساتھ میں کاٹنے اور چھیلنے کی چند چیزیں۔ یہ مسواک سکھ چین کی ہے۔ یہ کیکر کی ہے۔ یہ فلاں ہے۔ آپ ان میں سے کوئی مسواک منتخب کرلیں تو وہ اسے چھیل کر فٹ کرکے دے دیتا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا کچھ عرصہ بیٹھتا رہا پھر وہ بھی غائب ہو گیا۔‘

رفتہ رفتہ لاہور سے کتنا کچھ غائب ہو گیا۔پنواڑیوں کو ہی لیجیے۔کیسے کیسے وضع دار پنواڑی اس شہر میں تھے۔ کسی کی اختر شیرانی سے دوستی تھی اور کوئی ناصر کاظمی کا دم بھرتا تھا۔زمانہ طالب علمی میں ایک پنواڑی کے انفرادی رنگ سے خورشید صاحب بھی متاثر ہوئے۔ اس کی شخصیت اور پان کی تیاری کا عمل آج بھی ذہن میں جاگزیں ہے :

’میں بھاٹی سے اچھرہ میں اپنے عزیزوں کے یہاں پیدل جاتا تھا۔ اس زمانے میں ڈبل ڈیکر چلتی تھی لیکن پیدل چلنے کو ترجیح دیتا تھا۔ رستے میں شمع سینما کے پاس ایک پنواڑی بیٹھا کرتا تھا۔چھوٹا سا اس کا خوانچہ۔پان لپٹے ہوئے۔ اس سے اگر کبھی کہا کہ یار پان لگا دو تو وہ پہلے پتا اٹھاتا، اسے دھو کر صاف کرکے،اس پر چونا لگاتا اور تھوڑی دیر کے لیے رکھ دیتا، اب اسے ہوا لگ رہی ہے، اتنے میں ایک دو پان اور لگا دیے، اس کے بعد اس نے کتھا لگایا، پھر رکھ دیا، خشک ہو رہا ہے، پھر چھالی ڈالی، الائچی ڈالی، اور گلوری بنا کر آپ کو پان دیا۔ اگر کبھی یہ کہہ دیا کہ یار ذرا جلدی ہے تو وہ کہتا اچھا آپ کو جلدی ہے تو کہیں اور سے پان لے لیں۔ اس چھوٹے سے چھابڑی والے کو، کوئی آئے یا نہ آئے اس بات کی فکر نہیں تھی، اسے بس معیار کی فکر تھی۔ پہلے لوگ ایک معیار بناتے تھے، اسے قائم رکھتے تھے، اب تو صرف پیسہ پیسہ ہے۔‘

پنواڑی کی بات ہو رہی ہے اس لیے خورشید رضوی صاحب کے محبوب شاعر مجید امجد کی نظم ’پنواڑی‘ کا یہ منتخب حصہ بھی دیکھ لیجیے۔شاعر نے ’پنواڑی‘ کو امر کردیا ہے:

بوڑھا پنواڑی، اس کے بالوں میں مانگ ہے نیاری

آنکھوں میں جیون کی بجھتی اگنی کی چنگاری

نام کی اک ہٹی کے اندر، بوسیدہ الماری

آگے پیتل کے تختے پر،اس کی دنیاساری

پان، کتھا، سگرٹ، تمباکو، چونا، لونگ، سپاری

عمر اس بوڑھے پنواڑی کی پان لگاتے گزری

چونا گھولتے، چھالیا کاٹتے، کتھا پگھلاتے گزری

سگرٹ کی خالی ڈبیوں کے محل سجاتے گزری

کتنے شرابی مشتریوں سے نین ملاتے گزری

چند کسیلے پتوں کی گتھی سلجھاتے گزری

اب تک خورشید صاحب کے وسیلے سے جن شخصیات کا ذکر خیر ہوا ہے  وہ سب آؤٹ ڈور  سے ہیں  لیکن اس سلسلے کی آخری شخصیت ان ڈور سے ہے۔نام ان کا نعمت ہے ۔اسم بامسمیٰ۔ جیسا نام ویسا کام۔ایک دن کی گفتگو میں لائبریریوں میں موجودسٹاف کے رویوں پر بات ہوئی تو خورشید صاحب کو نعمت یاد آگئے۔

نعمت علی پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں اٹینڈنٹ تھے۔ مستعد اور کتابوں کے ٹھکانوں سے باخبر۔ دوسروں کی مدد کو ہر دم  تیار۔ ان کے بارے میں خورشید رضوی صاحب نے بتایا:

’نعمت واقعی نعمت تھا۔محنتی اور ایمان دار آدمی۔ کام کا پورا۔ آپ کوئی پرانی کتاب ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے ہیں۔ تھک ہار کر نعمت سے کہنا تو اس نے سیڑھی لگانی اور الماری کے اوپر والے حصے سے کتاب نکال کر آپ کے سامنے رکھ دینی۔‘

گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی کے چیف لائبریرین ڈاکٹر محمد ہارون عثمانی  سے ملاقات ہوئی تو میں نے خورشید صاحب کے حوالے سے نعمت کا تذکرہ کردیا۔ عثمانی صاحب نے بتایا کہ یونیورسٹی کے سابق لائبریرین سید جمیل احمد رضوی نے ’آبگینے‘ کے عنوان سے  لائبریری کے رفقا کا تذکرہ لکھا ہے اس میں نعمت صاحب پر  مضمون شامل ہے۔ میں نے اسے پڑھنے میں دلچسپی ظاہر کی تو عثمانی صاحب نے ‘ آبگینے’ عنایت کردی جس میں نعمت صاحب کو قابل تحسین کردار کے طور پر یاد کیا گیا ہے ۔مضمون سے معلوم ہوا  کہ نعمت علی کو اورینٹل سیکشن کے ذخیرہ مخطوطات سے گہری واقفیت تھی۔

جمیل احمد رضوی نے لکھا ہے کہ کتاب نہ ملتی تو وہ بے چین ہو جاتے اور اسے ڈھونڈ کر سانس لیتے ،جس کے بعد ان کی چہرے پر طمانیت کی لہر ابھرتی۔ ان کی ایک خوبی ذخیرہ  کتب کی سالانہ جانچ پڑتال کے وقت سامنے آتی جس کے بارے میں جمیل احمد رضوی نے لکھا ہے:

’ہم دیکھتے کہ جس قرینے اور سلیقے سے نعمت علی کتابوں کی صفائی کرتے وہ انتہائی قابل تحسین ہوتا۔ کتابوں کو صفائی کے لیے جب میز پر رکھتے تو ان کو زور سے پٹختے نہیں تھ  تاکہ کتاب کی جلد کو نقصان نہ پہنچے۔ کتاب کی صفائی بھی ڈسٹر سے آہستہ آہستہ کرتے تاکہ گردو غبار بلند نہ ہو اور وہ اڑ کر دوسری کتابوں پر نہ پڑے۔ یہ عمل کتاب کے ساتھ محبت کی غمازی کرتا تھا۔‘

نعمت پر بات کرتے ہوئے خورشید صاحب کو اپنے استاد پروفیسر عبدالقیوم کی یاد بھی آئی تھی جن کا قول تھا کہ  لائبریری میں جانا بذات خود ایک تہذیبی عمل ہے، لائبریری کی بھی ایک گرد ہوتی ہے جو آدمی پر بیٹھتی ہے۔ لائبریری ان کی پسندیدہ جگہ تھی۔ طالب علموں کو بھی وہاں جانے کی برابر تاکیدکرتے۔ انہیں تازہ بہ تازہ کتابوں کے بارے میں بتاتے رہتے۔ اس لیے کتابیات پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔استحضار کا یہ عالم کہ  بقول خورشید رضوی ‘کسی بھی موضوع کو ان کے ساتھ زیر بحث لائیے وہ کھڑے کھڑے دس بیس قدیم و جدید مصادر بتادیتے تھے۔’

برسوں بعد ڈاکٹر خورشید رضوی سرگودھا میں کالج کے  پرنسپل تھے تو ایک دفعہ پروفیسر عبد القیوم وہاں تشریف لے گئے۔ عزیز شاگرد نے ان کے طالب علموں سے خطاب کا اہتمام لائبریری کے مرکزی ہال میں کیا۔ اس جگہ کے چناؤ کی دو طرح  سے اہمیت بنتی تھی۔ ایک تو  استاد کی مرغوب جگہ کون سی ہے یہ بات شاگرد نے فراموش نہیں کی تھی۔ دوسرے انہیں لائبریری سے محبت کا سبق بھی یاد تھا۔

پروفیسر عبد القیوم کے طالب علموں کو نئی کتابوں سے روشناس کروانے کی روش سے ایک اور لیجنڈری استاد خواجہ منظور حسین کا خیال آتا ہے جن کے طریقہ تدریس کی پرتیں ممتاز نقاد مظفر علی سید نے ان کے  خاکے میں کھولی ہیں۔ خواجہ صاحب نے جوزف کانریڈ کو پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کروایا تھا۔ ایک دن گرمیوں کی چھٹیوں میں مظفر علی سید ان کے ہاں گئے تو ہر طرف کانریڈ کی کتابوں کے  ساتھ ساتھ اس کے بارے میں تنقیدی اور سوانحی مسالے کا انبار تھا۔ عزیز شاگرد کو انہوں نے بتایا:

‘علی گڑھ میں پڑھایا تھا لیکن اب بہت سا نیا مسالہ وجود میں آچکا ہے جس کی روشنی میں اس کے جملہ کارنامہِ حیات کو نئے سرے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تازہ نوٹس تیار کرنے ہوں گے کہ تعطیلات کے بعد اس پر درس دینا ہے۔ ‘

ایک دن معمول سے ہٹ کر انہوں نے شاگردوں کو کلاس روم میں طلب کیا تو اس کی وجہ بھی ایک نئی کتاب سے انہیں متعارف کروانا تھا۔ اس واقعے کی تفصیل مظفر علی سید نے ‘یادوں کی سرگم’  میں یوں بیان کی ہے:

‘خواجہ صاحب ناسازیِ طبع کو چھوڑ کر، جو شاذ ہی کبھی ہوتی تھی، کسی دن کلاس سے غیر حاضر نہیں پائے گئے۔ صرف جب ایک مصنف پر ان کے لیکچر پورے ہو جاتے تھے تو نیا موضوع شروع کرنے سے پہلے ایک دن کا وقفہ دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اس وقفے والے دن ان کا پیغام ملا کہ سب لوگ کلاس میں آجائیں۔ حیرانی ہوئی کہ آج کیوں بلایا ہے۔ جا کر معلوم ہوا کہ رسکن کے بارے میں، جو پچھلے دن مکمل ہو چکا تھا، ایک نئی کتاب کل شام ہی موصول ہوئی ہے، اس کی نفسیاتی سوانح، پیٹر کینل کے قلم سے جو آرٹ اور ادب کی تاریخ و تنقید میں ایک اہم معاصر نام تھا۔ دو مسلسل پیریڈ اس کتاب پر صرف ہوئے۔ یہ غالباً ان کا بہترین لیکچر تھا۔‘

 ایسے استاد ہوں تبھی کوئی تہذیب مظفر علی سید اور ڈاکٹر خورشید رضوی جیسے عالم فاضل پیدا کرتی ہے۔ علم میں ہمارے پچھڑنے کا بنیادی سبب بڑے اساتذہ کا ناپید ہونا ہے۔ اب جس قسم کے استاد مارکیٹ میں ہیں، ان کی تدریس سے بونے ہی وافر تعداد میں پیدا ہو رہے ہیں جس کا مآل ہمارے سامنے ہے۔

بات محمد اسماعیل سے شروع ہوئی اور خواجہ منظور حسین پر ختم ہو رہی ہے جن کے پیشوں میں بعد المشرقین ہے لیکن ان کے اخلاقی نظام میں دیانت داری اور کام سے اخلاص کی جو قدریں مشترک ہیں اسی سے سماج آگے بڑھتا ہے ۔ ان اقدار کو تج دینے کا نتیجہ ہے جو ہم پستی کے گڑھے  میں پڑے ہیں اور کوئی دوسرا تو ہماری کیا عزت کرے گا ہم آپ اپنی نظروں میں بھی گر چکے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp