وہ تقریر جس کے بعد مارٹن لوتھر کنگ کو قتل کردیا گیا

جمعرات 4 اپریل 2024
author image

اسامہ خواجہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آج سے ٹھیک 55 برس پہلے امریکی ریاست ٹینیسی کے شہر میمفس میں سینیٹری ورکرز اپنی تنخواہوں میں اضافے اور مساویانہ حقوق کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔ ان مظاہروں کا آغاز یکم فروری 1968ء کو 2 ورکرز کی حادثانی اموات سے ہوا تھا جس کی بڑی وجہ مناسب حفاظتی نظام اور آلات کا نہ ہونا تھا۔

سیاہ فام ورکرز کو باقیوں کے مقابلے میں نہ صرف کم تنخواہیں بلکہ غیر انسانی سلوک کا بھی سامنا تھا۔ اس تحریک میں تیزی 12 مارچ کو آئی جب 1300 کے قریب ورکرز نے  کام پر آنے سے انکار کردیا۔

میمفس شہر کے میئر ہینری لوئب نے سیاہ فام ورکرز کی تنخواہ میں اضافے اور امتیازی سلوک کے خاتمے جیسے مطالبات قبول کرنے سے یکسر انکار کردیا تھا۔ ورکرز روزانہ کی بنیاد پر اکٹھے ہوتے اور احتجاج کرتے۔ ان کی تحریک میں اب ریاست سے باہر کے بھی انسانی حقوق کے رہنما شریک ہونے لگے تھے۔

مارٹن لوتھر کنگ نے 18 مارچ کو 25 ہزار افراد کے اجتماع سے خطاب کیا۔ مارٹن جب دوبارہ 28 مارچ کو میمفس شہر کے مظاہرے میں خطاب کے لیے آیا تو اس روز پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ کے دوران 16 سالہ لیری پائن مارا گیا۔

آخری تقریر اور 1958 کا قاتلانہ حملہ

عدم تشدد کا قائل مارٹن اس امید پر اگلی بار اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ 3 اپریل کو ایک بار پھر میمفس شہر آیا کہ اب تشدد نہیں ہوگا۔ اب کی بار سفر میں کچھ تاخیر بھی ہوئی کیونکہ اس کی فلائٹ کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی گئی تھی۔

اپنی زندگی کی آخری تقریر میں مارٹن لوتھر کنگ نے 10 برس قبل ہونے والے قاتلانہ حملے کا تذکرہ بھی کیا۔ اس حملے میں سیاہ فام خاتون (جو ذہنی مریضہ تھی) نے تیز دھار آلے سے کنگ کو نشانہ بنایا تھا۔ حملے میں اس کی شہہ رگ انتہائی معمولی فرق سے بچ گئی تھی۔ حملے کے بعد ا کی سرجری کرنے والے ڈاکٹر نے اس سے کہا تھا کہ اس دوران اگر وہ ذرا سی بھی حرکت کرتا یا اسے چھینک بھی آجاتی تو اس کی زندگی کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔

ویسے تو مارٹن لوتھر کنگ نے 3 اپریل کی اپنی آخری تقریر میں قتل کی دھمکیوں کےتذکرے کے ساتھ کچھ اشارے بھی دیے تھے۔ شاید اسے معلوم تھا کہ اس کی زندگی کے دن گنے جاچکے ہیں۔ کنگ نے کہا ’مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کچھ بیمار سفید فام بھائی کیا سلوک کریں گے، شاید ہمارے کچھ مشکل دن آرہے ہیں، لیکن میں جس بلندی پر پہنچ چکا ہوں اب یہ میرے لیے معنی نہیں رکھتا‘۔

اس نے کہا تھا کہ ہر کسی کی طرح میں بھی لمبی زندگی جینا چاہتا ہوں اور اس کی اپنی ایک جگہ ہے۔ میں شاید آپ کے ساتھ اس مقام (جہاں سفید اور سیاہ فام برابر سمجھے جائیں گے) تک نہ جا پاؤں جو مجھے دکھائی دیتا ہے اور جس کا وعدہ ہے۔ مارٹن نے توریت اور بائبل سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالے بھی دیے، جس کے مطابق وہ خود تو اپنی منزل نہ دیکھ پائے مگر خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا اور موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے بہتر مستقبل دیکھا۔

4 اپریل 1958ء

میمفس میں اپنی زندگی کی آخری تقریر کے اگلے روز مارٹن لوتھر کنگ اپنے ہوٹل کی بالکونی میں کھڑا تھا۔ اسے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک تقریب میں شرکت کے لیے جانا تھا۔ 2 منزلہ ہوٹل کی بالکونی سے نیچے وہ اپنے دوستوں سے بات کر رہا تھا جب ایک سفید فام نسل پرست نے اسے گولی کا نشانہ بنایا۔

کنگ کے قاتل جیمز ایرل رے نے سامنے کی عمارت میں ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا تھا جہاں سے اس نے گولی چلائی۔ کنگ کو گولی لگنے کے فوری بعد اسپتال لے جایا گیا جہاں 7 بج کر 5 منٹ پر اس کی موت کا اعلان کردیا گیا۔

وہ بالکونی جس میں کھڑے مارٹن لوتھر کو گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا

39 سالہ مارٹن لوتھر کنگ کے قتل پر امریکا بھر میں ہنگامے برپا ہوگئے جن کا افسوسناک پہلو یہ تھا کہ سفید فام میڈیا نے نسلی امتیازات کے خلاف کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ آواز کے قتل کی بجائے فسادات پر زیادہ کوریج کی۔

جان ایف کینیڈی جیسی موت

مارٹن لوتھر کنگ کو قتل سے پہلے بھی کئی دھمکیاں مل چکی تھیں۔ سنہ 1963ء میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد وہ اپنی بیوی کو بتا چکا تھا کہ اس کا انجام بھی یہی ہوگا۔ کوریٹا اسکاٹ کنگ نے اپنی ذاتی یادداشتوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ‘کینیڈی کے قتل پر مارٹن نے کہا کہ یہ ایک بیمار معاشرہ ہے جو میرے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرے گا’۔

دراصل جان ایف کینیڈی کی صدارت میں نسل پرستی پر مبنی کئی قوانین کا خاتمہ ہوا تھا۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ سنہ 1960ء میں امریکی صدارتی انتخابات سے قبل مارٹن اٹلانٹا میں ایک مظاہرے میں شریک تھا جہاں سے اسے گرفتار کرکے 4 ماہ قید کی سزا سنا دی گئی۔ اس وقت کے دونوں ہی صدارتی امیدواروں رچرڈ نکسن اور جان ایف کینیڈی سے اس سلسلے میں مدد کی اپیل کی گئی۔ رچرڈ نکسن جو مارٹن کے زیادہ قریب تھا اس نے کسی قسم کا بیان دینے یا مدد سے انکار کردیا۔ اس کی نسبت جان ایف کینیڈی نے نہ صرف بھرپور مدد کی بلکہ اپنے بھائی کو جو وکالت کرتا تھا، اسی کام پر لگا دیا۔

2 دن بعد جب مارٹن رہا ہوکر باہر آیا تو اس کے والد نے کُھل کر جان ایف کینیڈی کی حمایت کا اعلان کردیا۔ 8 نومبر 1960ء کو جب جان ایف کینیڈی معمولی برتری سے الیکشن جیت کر صدر بنا تو مورخین کے بقول یہ فرق دراصل سیاہ فاموں کی حمایت کا نتیجہ تھا ورنہ نکسن 37ویں کے بجائے 35ویں امریکی صدر ہوتے۔

1968ء کی ہنگامہ خیزی

مارٹن لوتھر کنگ کے قتل سے پھوٹنے والے فسادات تقریباً 2 ماہ تک جاری رہے۔ کنگ کے قتل کے روز جان ایف کینیڈی کے بھائی رابرٹ ایف کینیڈی نے حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک مشہور زمانہ تقریر کی۔

رابرٹ اس وقت ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدواران کی دوڑ میں شامل تھا۔ 5 جون 1968ء کو ایک قاتلانہ حملے میں رابرٹ بھی مارا گیا۔ ویسے سنہ 1968ء امریکا میں صدارتی انتخابات کے علاوہ بھی  ہنگامہ خیز سال تھا۔

ویتنام جنگ میں براہِ راست امریکی مداخلت کو کئی برس بیت چکے تھے۔ مگر ہلاکتوں کے اعتبار سے امریکی افواج کے لیے یہ سال سب سے مہلک ثابت ہوا تھا۔ کئی امریکی ریاستوں میں ویتنام جنگ کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔ اسی زمانے میں نسلی امتیازات کے خلاف تحریکات بھی جاری تھیں۔ سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے سرگرم مارٹن لوتھر کنگ نے پہلے تو کُھل کر اس مہم جوئی کی مخالفت سے گریز کیا مگر ویتنام جنگ کے بڑے مخالف جیمز ویول اور پھر باکسر محمد علی کو دیکھ کر وہ بھی اس معاملے پر کھل کر سامنے آگئے۔

ویتنام جنگ کی مخالفت

اپنے قتل سے ٹھیک ایک برس پہلے 4 اپریل 1967ء کو نیویارک میں ایک شہرہ آفاق تقریر کرتے ہوئے مارٹن لوتھر کنگ نے امریکی حکومت کو دنیا بھر میں جاری پُرتشدد کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیا۔

کنگ نے کہا کہ اس جنگ میں امریکی افواج 10 لاکھ سے زائد افراد کو قتل کرچکی ہے اور اس سب کا مقصد ویتنام کو امریکی کالونی بنانا ہے۔ ان بیانات سے کنگ کو جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد صدر بننے والے لنڈن بی جانسن کی حمایت سے ہاتھ دھونے پڑے مگر معاملہ یہیں تک محدود نہ رہا۔ کنگ کے بقول جب انہوں نے امریکی سیاہ فاموں کی بات کی تو امریکی پریس نے ان کے موقف کی حمایت کی مگر یہی بات جب انہوں نے ویت نامی بچوں کے حوالے سے کی تو اس معاملے پر دوہرا معیار دکھاتے ہوئے ایک محاذ کھڑا کردیا گیا۔

مارٹن کی تقاریر کب مشہور ہوئیں؟

واشنگٹن کے لنکن میموریل کے سامنے 28 اگست 1963ء کو مارٹن لوتھر کنگ کی جانب سے کی جانے والی تقریر بلاشبہ امریکی تاریخ میں 20ویں صدی کی چند بہترین تقاریر میں سے ایک ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تقریر کے اگلے روز واشنگٹن میں ہونے والے لاکھوں کے اجتماع کا تو ذکر تھا مگر اس تقریر کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی بلکہ کنگ کی یہ تقریر تو اس کی موت کے بعد زیادہ مشہور ہوئی جب اسے پریس میں دوبارہ چھاپا جانے لگا۔

’میرا ایک خواب ہے‘ کے نام سے مشہور اس تقریر کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جملہ کنگ اس سے قبل بھی کئی تقاریر میں استعمال کرچکا تھا۔ اسی طرح اس دن کی تقریر میں اسے اپنے اس خواب سے متعلق کچھ نہیں کہنا تھا۔ مگر اس کی تقریر کے دوران جب اس کی دوست مہالیا جیکس نے آواز لگائی کہ انہیں اپنے خواب کے بارے میں بتاؤ تو اس نے یہ جملہ بار بار دہرایا۔

اسی طرح اس کی تقریر میں آزادی سے متعلق ایک مخصوص حصہ معروف امریکی وکیل آرچی بالڈ کیرے کی سنہ 1952ء میں کی گئی معروف تقریر سے لیا گیا تھا۔

فن تقریر سے ہٹ کر مارٹن لوتھر کنگ نے انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر امریکا بھر میں جاری مختلف مزاحمتی اور نسلی تعصبات کے خلاف تحریکات میں شمولیت کی۔ دنیا اگر آج کنگ کو یاد رکھے ہوئے ہے تو اس کی وجہ تقاریر کے ساتھ ساتھ اس کی جدوجہد بھی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وی نیوز کے ساتھ بطور ایڈیٹر پلاننگ منسلک ہیں۔ اس سے قبل بھی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا کے اداروں کے لیے کام کر چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp