مشہور برطانوی آکسفورڈ یونیورسٹی کی طلباء یونین کے نو منتخب پاکستانی صدر اسرار خان کاکڑ نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلرشپ کے لیے درخواستیں جمع کرانے کی آخری تاریخ 18 اگست تھی، عمران خان نے وہ درخواست جمع کرا رکھی ہے۔ اس عہدے کے لیے انتخابات ہوتے ہیں جن میں یونیورسٹی کے تمام سابق طلبا حصہ لے سکتے ہیں۔ ان کی تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب ہے۔
اس مرتبہ یونیورسٹی نے آن لائن ووٹنگ متعارف کرا دی ہے جس کی وجہ سے زیادہ ٹرن آؤٹ کا امکان ہے۔ عمران خان کی پاکستان میں مشکلات کی وجہ سے ان کو ان انتخابات میں فیور یا ہمدردی کا ووٹ مل سکتا ہے، خاص طور پر آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل پاکستانی نژاد اور مسلمان طلبا ان کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے ہر سال تیس، چالیس طلبا ہی آکسفورڈ یونیورسٹی جاتے ہیں، تاہم یونیورسٹی کے پاکستانی نژاد طالب علموں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ لیکن چانسلر کے عہدے پر انتخابات قبل اس عہدے کے لیے امیدواروں کی اہلیت کے معیار کو جانچا جائے گا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی چانسلر انتخابات میں امیدواروں کے جانچ پڑتال کا عمل اس بار لارڈ ریڈ کی سربراہی میں قائم کمیٹی کے ذمے ہے۔ لارڈ ریڈ برطانیہ کے سابق چیف جسٹس ہیں۔ جانچ پڑتال کے عمل میں دیکھا جاتا ہے کہ امیدوار کو یونیورسٹی رولز اور ریگولیشنز سے کتنی آگاہی ہے، اس نے چیرٹی ایکٹ کی خلاف ورزی تو نہیں کی اور مزید یہ کہ امیدوار کسی موجودہ قانون ساز اسمبلی کا رکن نہیں ہونا چاہیے۔
اسرار کاکڑ نے بتایا کہ امیدواروں کی جانچ پڑتال کرنے والی کمیٹی عمران خان کو پاکستان میں سنائی جانے والی سزاؤں کو کتنی اہمیت دیتی ہے اس کا تو پتہ نہیں لیکن چیرٹی ایکٹ کے مطابق اگر کسی کو مالی بے ضابطگی اور غبن کے الزامات کے تحت سزا ہوئی ہو تو وہ چانسلر کا امیدوار نہیں بن سکتا۔
انہوں نے کہا کہ چانسلر کا کردار علامتی ہوتا ہے جبکہ تمام انتظامی اختیارات وائس چانسلر کے پاس ہوتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی چانسلر کے عہدے کی معیاد 10 سال ہوتی ہے اور اس وقت اس عہدے کے چار امیدوار ہیں۔ ان کے مطابق اس بار لیڈی ایلش اس عہدے کی مضبوط امیدوار ہیں کیونکہ ان کا یونیورسٹی کے ساتھ کام کرنے کا 12 سالہ تجربہ ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کو آکسفورڈ میں خطاب کی دعوت
اسرار کاکڑ نے بتایا کہ انہوں نے اگلے سال جنوری، فروری کے مہینوں میں وزیراعظم شہباز شریف کو آکسفورڈ طلباء یونین سے خطاب کی دعوت دی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ جلد اس بارے میں مطلع کریں گے۔
اسرار خان کاکڑ آکسفورڈ یونیورسٹی طلباء یونین کے تیسرے پاکستانی صدر
وہ آکسفورڈ سے قانون کے شعبے میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آکسفورڈ یونین کا قیام 1823 میں عمل میں آیا اور اس کا بنیادی مقصد اظہار رائے کی آزادی کو فروغ دینا تھا۔ اس وقت یونیورسٹی کے طلبا جمہوریت اور بادشاہت پر بحث کرنا چاہتے تھے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ ان کو اجازت نہیں دے رہی تھی، تو طلبا نے یونین بنانے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں اس طلبا یونین کے اراکین، گلیڈسٹون، میک ملن برطانیہ کے وزرائے اعظم بنے۔ متنوع موضوعات پر مباحثوں کے لیے آکسفورڈ یونین کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ ہر شعبہ زندگی خواہ وہ سائنس ہو یا سیاست، اس سے تعلق رکھنے والی قدآور شخصیات آکسفورڈ یونین سے خطاب کرتی رہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی طلبا یونین کے الیکٹورل کالج کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کا ہر طالب علم طلبا یونین کا رکن نہیں ہوتا بلکہ وہاں طلبا کو اس یونین کی رکنیت لینا پڑتی ہے اور وہی طلبا صدر کے انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔ یونیورسٹی کے سابق طلبا بھی انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں لیکن ووٹنگ میں حصہ لینے کے لیے ذاتی طور پر آنا پڑتا ہے اس لیے بیرونی ممالک میں موجود سابق طلبا اس ووٹنگ میں حصہ نہیں لے سکتے۔
کیا فیک نیوز اظہار رائے کی آزادی میں آتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں اسرار خان کاکڑ نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی بہت ضروری ہے، جب آپ لوگوں کو مختلف موضوعات پر مباحثے کی آزادی دیتے ہیں تب جا کر مسائل کا حل نکلتا ہے۔ سینسرشپ مطلوبہ مقاصد کو حل نہیں کر پاتی۔ سینسرشپ سے لوگوں کے اندر اضطراب بڑھتا ہے، اندر ہی اندر ایک لاوہ پکنے جیسی صورتحال بن جاتی ہے۔
اکیسویں صدی فیک نیوز اور فیک رئیلٹی کی دنیا ہے تاہم یہ اظہار رائے کی آزادی ہی میں آتی ہے۔ لیکن اظہار رائے کی آزادی مشروط ہے
بلوچستان میں عام لوگوں کی شہادت کی سخت مذمت کرتا ہوں
بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے اسرار خان کاکڑ نے کہا کہ اس کی سخت الفاظ میں مذمت ہونی چاہیے۔ ہمارا مذہب، قومیت یا کسی اور چیز کے باعث عام لوگوں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔انہوں نے کہا کہ یہ سیاسی مسئلہ ہے اور اگر حکومت اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتی تو یہ مزید خراب ہو جائے گا۔ پاکستان میں پنجابیوں کے بعد سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز پشتون ہیں۔ سیاست ہو، تجارت یا پھر دیگر شعبے، پشتون اس ملک کے بڑے اسٹیک ہولڈرز ہیں لیکن بلوچ قوم پرستی کی اگر بات کی جائے تو بلوچوں کا اس ملک میں کوئی اسٹیک نہیں۔
ناراض بلوچوں کی کوئی سیاسی نمائندگی نہیں
اسرار کاکڑ نے کہا کہ بندوق کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ لیکن ناراض بلوچوں کی سیاست میں نمائندگی بالکل بھی نہیں۔ ماہ رنگ بلوچ سیاست میں حصہ لے کر قانون سازی کا حصہ بن سکتی تھی لیکن اس کو دوسرا رستہ اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔ آج بھی اگر آزادانہ اور منصفانہ انتخاب کرایا جائے تو بلوچ قوم پرست جماعتیں سارے حلقوں سے جیت جائیں گی۔ جب ان قوم پرست جماعتوں کو قومی دھارے میں جگہ ملے گی تب وہ نظام کے اندر رہ کر اپنے مسائل کے بارے میں گفتگو کریں گی لیکن اس کے ضروری ہے کہ ان کو سیاسی اسپیس دیا جائے۔
بیرونِ ممالک مقیم لوگ شناختی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں
اسرار کاکڑ نے کہا کہ ہمارے خطے کے لوگ جب مغربی ممالک میں جاتے ہیں تو وہ شناخت کے بحران کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ وہ وہاں ان ممالک کی اقدار اور ثقافت کو قبول نہیں کرتے۔ پھر ان کے بچے جب اسکولوں اور کالجوں میں جاتے ہیں جہاں پر مغربی اقدار کا درس دیا جاتا ہے جبکہ گھر میں مشرقی اقدار کا چلن ہوتا ہے تو ان کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ پاکستانی ہیں، برطانوی یا مسلمان۔ ایسے میں کئی لوگ انتہا پسند مذہبی بن جاتے ہیں۔ اس میں کچھ عمل دخل وہاں کے معاشروں کا بھی ہوتا ہے جہاں انہیں قبولیت نہیں ملتی۔ لیکن ایک لحاظ سے یہ پاکستان کے لیے بھی اہم ہے کہ پاکستان سے باہر بیٹھے لوگ بھی پاکستان سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں۔