سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سوشل میڈیا کے لیے فوکل پرسن اظہر مشوانی نے لاہور ہائی کورٹ میں اپنے مبینہ اغوا سے متعلق جمع کرائے گئے بیان میں کہا ہے کہ ان کی گمشدگی کے دوران مختلف تفتیش کاروں کی جانب سے ان سے پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم، ٹرینڈز، اخراجات، زمان پارک اور ذاتی زندگی کے بارے میں گھنٹوں پوچھ گچھ کی جاتی رہی۔
اظہر مشوانی کی 23 مارچ کو لاپتہ ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں اور اتنا عرصہ بظاہر لاپتا رہنے کے بعد 31 مارچ کو وہ واپس گھر پہنچ گئے تھے۔
اس دوران اظہر مشوانی کی اہلیہ ماہ نور اظہر نے بی بی سی سے اپنی ٹوئٹس شیئر کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ اظہر کو دن کے دو بج کر 51 منٹ پر لاہور سے زمان پارک جاتے ہوئے اٹھایا گیا تھا۔
بی بی سی کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان کے مطابق اظہر مشوانی 23 مارچ کی دوپہر آن لائن ٹیکسی سروس کے ذریعے زمان پارک جا رہے تھے کہ ٹاؤن شپ کے علاقے میں اکبر چوک کے قریب ان کی گاڑی کو چند گاڑیوں نے روکا اور ان میں سے ’پنجاب پولیس کی وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس نامعلوم افراد نے‘ انہیں حراست میں لے لیا۔
بیان کے مطابق اس دوران اظہر مشوانی نے اپنا موبائل گاڑی کی سیٹ کے نیچے پھینک دیا تھا۔ وہ افراد ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور سر پر کالا کپڑا ڈال کر انھیں لے گئے اور کچھ دیر بعد ایک اور گاڑی میں منقتل کیا۔
اظہر مشوانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں گاڑی میں منتقل کرنے کے فوراً بعد نامعلوم افراد نے موبائل فون ڈھونڈنا شروع کر دیا اور نہ ملنے پر دوبارہ ٹیکسی سے جا کر لایا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اظہر مشوانی کے اہلخانہ کی جانب سے ان کی موبائل لوکیشن شیئر کیے جانے کے بعد انہیں ایک اور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ تقریباً پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد انہیں راولپنڈی اسلام آباد منتقل کیا گیا۔ انہیں روزے کی حالت میں 6-8 گھنٹے تک ایک لکڑی کی کرسی پر زنجیروں والی ہتھکڑی سے باندھ کر سوالات کیے گئے اور ان کے کمرے اور ملحقہ واش روم میں متعدد کیمرے لگائے گئے تھے۔
بیان کے مطابق دوران حراست اظہر مشوانی کا تین بار پولی گراف ٹیسٹ کیا گیا اور منگل کی شام انہیں ایک نئے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا جہاں انہیں سیل میں رکھا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پولی گراف ٹیسٹ میں مجھ سے بار بار چند مخصوص ٹوئٹر ہینڈلز اور اکاؤنٹ چلانے کے بارے میں پوچھا گیا۔‘ ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم پر کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں، لوگ مفت میں کیسے کام کر لیتے ہیں، عمران خان سے کون کون سے لوگ ملنے آتے ہیں؟
ان کے مطابق ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ زمان پارک کے باہر موجود لوگوں کو کھانا کون دیتا ہے، یوٹیوبرز کو کتنے پیسے دیے جاتے ہیں، یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کے لوگوں کو ملاقاتوں میں عمران خان کی جانب سے کیا ٹاسک دیے جاتے ہیں، تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کو ہدایات کہاں سے ملتی ہیں، سوشل میڈیا ٹرینڈز کیسے ہوتے ہیں اور کتنے فالورز اصلی ہیں۔
اظہر مشوانی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان میں جاری فاشزم پر میری ٹوئٹس پر کافی غصے بھرے سوالات کیے گئے اور میرے خلاف ثبوت گھڑنے کی مسلسل کوششیں کی گئیں۔‘
ان کے مطابق ’پولی گراف ٹیسٹ نے ان کے تمام دعوے جھوٹے ثابت کیے تو کسی ٹیلی کام انڈسٹری کے ماہر کو بلوا کر میرے موبائل کا سارا ڈیٹا چیک کروایا گیا اور سوالات کیے گئے۔‘
اظہر مشوانی نے عدالت کو بیان دیا ہے کہ ان کی ذاتی زندگی سے متعلق بچپن سے شادی تک سب کچھ بارہا پوچھا گیا اور ان سے تحریک انصاف کی تمام سوشل میڈیا ٹیم کے حوالے سے بھی سوالات کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ جمرات اور جمعے کی درمیانی شب انہیں دوبارہ پہلے والی بلڈنگ میں شفٹ کیا گیا اور پھر وہاں سے سحری کے بعد نکالا گیا اور مختلف سڑکوں پر گھمانے کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا۔ گو ان کا موبائل انہیں واپس کردیا گیا لیکن دیگر سامان اور بٹوہ واپس نہیں کیا گیا ہے۔
اظہر مشوانی نے اپنے بیان میں الزام عائد کیا کہ انہیں اٹھانے والوں کا کہنا تھا کہ انہیں ڈی جی ایف آئی اے اور وزیر داخلہ کے احکامات پر اٹھایا گیا اور جب تک وہ نہیں چاہیں گے انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔