کیلے کے زرعی فضلے کا بہترین استعمال، پاکستانی سائنسدانوں کا کمال

جمعرات 29 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کیلے کا چھلکا آپ کے گھر کو روشن کرنے سمیت آپ کی خوش لباسی میں بھی حصہ دار ہوسکتا ہے؟ ایک اختراعی نوعیت کی ٹیکنالوجی سائنس فکشن کے اس منظر نامے کو حقیقت کا روپ دے رہی ہے، اور یہ اتنا ہی زبردست ہے جتنا سننے میں لگتا ہے۔

برطانیہ کی نارتھمبریا یونیورسٹی کے سائنسدانوں اور پاکستان کی نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی کے شراکت داروں نے ایک حیرت انگیز معاہدہ کیا ہے، وہ کیلے کے فضلے کو ماحول دوست ٹیکسٹائل اور صاف توانائی میں تبدیل کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ذہنی تناؤ کو دور کرنے کے لیے ملازمین نے ڈیسک پر کیلےاُگا دیے

صرف پاکستان میں، کیلے کی کاشت ہر سال 80 ملین ٹن زرعی فضلہ پیدا کرتی ہے لیکن انہیں سڑنے کے لیے چھوڑدینے کے بجائے، یہ نئی ٹیکنالوجی اس فضلے کو خزانے میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے، آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن بنایا جارہا ہے۔

 

سب سے پہلے، کیلے کے بچے ہوئے حصے کو ٹیکسٹائل ریشوں میں تبدیل کیا جاتا ہے، اس کے بعد کسی بھی بچے ہوئے فضلہ کو قابل تجدید توانائی کے طور پر دوسری زندگی دی جاتی ہے، یہ اس کیلے سے نیکی کے ہر آخری قطرے کو نچوڑنے کے مترادف ہے۔

مزید پڑھیں:کیلے سے کار اور سائیکل کے پرزے بنانے کا کامیاب تجربہ کیسے ممکن ہوا؟

اس خبر کا بہترین حصہ؟ تصور کریں گندی توانائی کے بجائے کیلے سے بننے والی ایک صاف بجلی کا، یہ صرف ماحول کی ہی نہیں بلکہ لوگوں کی بھی جیت ہے، اس منصوبے کا مقصد پاکستان کے نصف دیہی علاقوں تک صاف بجلی فراہم کرنا ہے، جہاں بہت سے لوگ اب بھی گندے ایندھن پر انحصار کرتے ہیں۔

نارتھمبریا یونیورسٹی کے شعبہ مکینیکل اینڈ کنسٹرکشن انجینئرنگ سے وابستہ سائنسدان ڈاکٹر جبران خالق کے مطابق پاکستان کے صنعتی شہر فیصل آباد کی نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی میں شراکت داروں نے کیلے کے زرعی فضلے کو ٹیکسٹائل ریشوں میں تبدیل کرنے کے لیے ایک ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔

مزید پڑھیں: عالمی بینک نے بلوچستان کی قابل تجدید توانائی کے استعمال کا مشورہ کیوں دیا؟

سائنسدانوں کے ایک بیان کے مطابق اس منصوبے کا مقصد خوراک اور فائبر زرعی فضلہ کو قابل تجدید ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہوئے دیہی پاکستان میں پائیدار توانائی تک رسائی کو بہتر بنانا ہے۔ ’تاہم، دیہی سندھ میں جہاں زیادہ تر کیلے اگائے جاتے ہیں، بجلی کی کمی نے اب تک اس اختراع کو بڑھانے سے روک دیا ہے۔‘

انوویٹ یوکے کی جانب سے توانائی کی کیٹالسٹ اسکیم کے ذریعے 3 لاکھ پاؤنڈز کی فنڈنگ حاصل کرنیوالے اس منصوبے کی توجہ بیرون ملک توانائی کی موثر ترقی کو فروغ دینے پر مرکوز ہے، یہ منصوبہ اگلے سال تک کیلے کے زرعی فضلے کو ٹیکسٹائل ریشوں اور قابل تجدید توانائی میں تبدیل کرنے پر توجہ مرکوز کرے گا۔

مزید پڑھیں: زیادہ پکے ہوئے کیلے کھانے کے 6حیران کن فوائد

اس کا ممکنہ اثر کافی وسیع ہے، سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں کیلے کا فضلہ 57,488 ملین مکعب میٹر سِنتھیٹک یعنی مصنوعی گیس پیدا کر سکتا ہے جو کہ بجلی کی پیداوار کے لیے ایک پائیدار ایندھن ہے، یہ آپ کے اوسط کیلے کے چھلکے سے حاصل کردہ بہت زیادہ توانائی ہے۔

ڈاکٹر محمد صغیر بھی اس کیلے کے فضلے سے وابستہ ٹیکنالوجی پر کام کرنیوالے اہم سائنسدان ہیں، جو اس پروجیکٹ کی صلاحیت کے بارے میں بہت پرجوش ہیں، ان کے خیال میں یہ اختراعی نقطہ نظر نہ صرف زرعی ضمنی مصنوعات کو پائیدار ٹیکسٹائل میں تبدیل کرے گا بلکہ ماحولیاتی شعور کے طریقوں اور تکنیکی ترقی کے درمیان ایک قابل ذکر ہم آہنگی کی مثال بھی پیش کرتا ہے۔

’۔۔۔جس سے مقامی طور پر ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور برطانیہ کے خالص صفر ایجنڈے کو حاصل کیا جا سکتا ہے، لہذا، اگلی بار جب آپ کیلے کو چھیلیں، تو یاد رکھیں کہ وہ عاجز چھلکا گھروں کو طاقت دے سکتا ہے اور مستقبل میں لوگوں کو کپڑے پہنا سکتا ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp