بنگلہ دیش میں ہندو مخالف تشدد کی خبریں بھارتی پروپیگنڈا قرار

جمعہ 30 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد جرمنی اور برطانیہ کے دور دراز آؤٹ لیٹس میں غیر حقیقی خبریں شائع ہوئی تھیں، جہاں 7 اگست کو گارڈین نے خبر دی تھی کہ بھارت کے سوشل میڈیا پر بنگلہ دیش میں ہجوم کے ہاتھوں ہندوؤں کے مارے جانے، مندروں کو جلائے جانے اور ان کے کاروبار اور دکانوں پر لوٹ مار کی تصاویر کی بھرمار ہے، تاہم حملوں کے مکمل پیمانے کا اندازا نہیں لگایا جا سکا۔

وائس آف امریکا کے مطابق امریکا میں بنگلہ دیشی امریکی ہندوؤں نے ایسے بینرز کے ساتھ مارچ کیا جن پر لکھا تھا کہ ’ہندوؤں کو مارنا بند کرو‘ اور بھارتی نژاد امریکی قانون ساز روکھنہ نے فیس بک اور یوٹیوب پر مطالبہ کیا تھا کہ امریکی حکومت بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے تحفظ کے اقدام کرے۔

یہ پروپیگنڈا بھارت میں سب سے زیادہ شدت سے سنائی دیا، جہاں دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے اتر پردیش، مہاراشٹر اور دوسری ریاستوں میں ان حملوں پر احتجاج کے لیے ریلیاں نکالیں ،جو بقول ان کے ’ہندوؤں پر اسلام پسندوں کے فرقہ وارانہ حملے‘ تھے۔

مزید پڑھیں:بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر عائد پابندی ہٹا دی گئی

خود بنگلہ دیش میں، ہندو، بودھوں اور مسیحیوں کے اتحاد کی انٹرنیشنل بین العقائد کونسل’انٹر فیتھ ہندو بودھسٹ کرسچن یونٹی کونسل‘ نے بھی خطرے کے احساس کو تسلیم کیا۔ کونسل نے 9 اگست کو ایک کھلے خط میں کہا کہ ملک بھر کی اقلیتیں سخت تشویش، پریشانی اور غیر یقینی کیفیت میں ہیں۔

نوبل انعام یافتہ، محمد یونس کی زیر قیادت بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ایک باضابطہ بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ کچھ مقامات پر مذہبی اقلیتوں پر حملوں کو گہری تشویش کے ساتھ نوٹ کیا گیا ہے۔ نئی کابینہ فوری طور پر نمائندہ اداروں اور دوسرے متعلقہ گروپس کے ساتھ بیٹھ کر ایسے قابل نفرت حملوں کے سدباب کے طریقے تلاش کرے گی۔

یہ واضح ہے کہ ہجوم کے تشدد میں لوگ ہلاک ہوئے اور عمارتیں جلائی گئیں، لیکن حقائق کی جانچ کرنے والے بنگلہ دیشی تفتیش کاروں کے تفصیلی تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر متاثرین کو ان کے عقیدے کی وجہ سے نہیں بلکہ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ سے وابستگی کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا جن سے بڑے پیمانے پر نفرت پائی جاتی تھی۔ بنگلہ دیش میں ہندوؤں نے بھاری اکثریت سے حسینہ اور ان کی جماعت کی حمایت کی تھی جس کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔

مزید پڑھیں:بنگلہ دیش کیخلاف دوسرے ٹیسٹ کے لیے پاکستانی ٹیم میں اہم تبدیلیاں

ڈھاکا میں قائم حقائق کی جانچ کرنے والی تنظیم ’ڈسمس لیب‘ کی ریسرچ ٹیم کے سربراہ منہاج امان نے وائس آف امریکا کو ٹیلی فون پر بتایا کہ شیخ حسینہ کے زوال کے بعد، لوگوں نے اپنا غصہ پولیس اور ان کی پارٹی کے مسلمانوں اور ہندووں پر نکالا۔ لہٰذا ہجوم نے جماعت سے وابستہ افراد پر حملہ کرتے ہوئے کچھ ہندو گھرانوں پر بھی حملہ کیا۔

بنگلہ دیش میں مقیم فرانسیسی خبر رساں ادارے سے وابستہ حقائق کی جانچ کرنے والے تفتیش کار قادرالدین ششیر نے کہا کہ ممکن ہے کہ ہجوم میں چھپے کچھ لوگوں نے بعض گھرانوں کو صرف گھر کا سامان لوٹنے یا چوری کرنے کے لیے نشانہ بنایا ہو، جیسا کہ چھوٹے جرائم پیشہ افراد کرتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر حملے سیاسی بنیاد پر کیے گئے، جن میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ان ہندوؤں کو بھی نشانہ بنایا گیا جو عوامی لیگ سے وابستہ تھے۔ یہ حملے مذہب کی وجہ سے نہیں کیے گئے۔

لگ بھگ 2 درجن ہندو مذہبی تنظیموں پر مشتمل، بنگلہ دیش نیشنل ہندو گرینڈ الائنس نے بھی مذہبی محرک نہ ہونے کو تسلیم کیا ہے۔ الائنس کے اعدادو شمار کے مطابق ہجوم نے ہندوؤں کی 278 املاک کی توڑ پھوڑ کی لیکن اس کے سیکریٹری جنرل گوبندا پرمانک نے بتایا کہ 5 اگست کے بعد ہجوم نے عوامی لیگ کے حامی مسلمان گھرانوں پر اس سے 5 سے 7 گنا زیادہ حملے کیے۔

مزید پڑھیں:بنگلہ دیش کی راولپنڈی ٹیسٹ میں پاکستان کے خلاف پہلی تاریخی فتح

پرمانک نے ٹیلی فون پر بتایا کہ قریباً تمام حملوں کی وجہ سیاسی تھی، بھارتی میڈیا نے انہیں غلط طور سے فرقہ وارانہ ہندو مخالف حملے قرار دے کر پروپیگنڈا کیا۔ بنگلہ دیش میں، مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی موجود نہیں۔ کچھ ہندو 5 اگست کے بعد مندروں کی حفاظت کے بارے میں فکر مند تھے لیکن مسلمان بھائی ملک بھر میں بہت سے مندروں کے سامنے پہرے دیتے ر ہے۔

فسادات سے سامنے آنے والی کچھ انتہائی سنسنی خیز تصاویر اور رپورٹس غلط یا گمراہ کن ہیں۔ بھارتی آؤٹ لیٹ ’ریپبلک ٹی وی‘ نے چٹاگانگ میں ایک مندر کی ویڈیو نشر کی، اور کہا کہ بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں نے مندر نذر آتش کردیا۔ لیکن ’ڈسمس لیب ‘میں حقائق کی جانچ کرنے والے محققین نے رپورٹ کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا۔

ڈسمس لیب کی ریسرچ ٹیم کے سربراہ منہاج امان نے کہا کہ مندر کے نگران نے بتایا کہ مندر پر قطعی طور پر کوئی حملہ نہیں ہوا۔ ایک ہجوم نے اس سے ملحق عوامی لیگ کے دفتر کے فرنیچر کو آگ لگا دی تھی اور وہ نہیں جانتے کہ مندر پر آتشزدگی‘ کی افواہ کیسے پھیلی۔ وائس آف امریکا نے ریپبلک ٹی وی سے رابطہ کیا کہ آیا وہ اپنی رپورٹ پر قائم ہے؟ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

مزید پڑھیں:بنگلہ دیش سے فرار کے بعد شیخ حسینہ واجد کا مستقل ٹھکانہ اب کیا ہوگا؟

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر وائرل ہونے والی ایک اور پوسٹ میں ایک جلتے ہوئے گھر کی ویڈیو کو ثبوت کے طور پر شئیر کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایک ہجوم نے بنگلہ دیش کی قومی ٹیم کے ایک ہندو کرکٹر لٹن داس کے گھر کو آگ لگا دی تھی۔ حقائق کی جانچ پڑتال پر معلوم ہوا کہ لٹن داس کے گھر کو آگ نہیں لگائی گئی تھی۔ پولیس نے تصدیق کی کہ ویڈیو میں جلنے والا گھر عوامی لیگ کے ایک رکن پارلیمنٹ اور بنگلہ دیش کے سابق مسلمان کرکٹر مشرفی مرتضیٰ کا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp