خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے اغوا ہونے والے لیفٹیننٹ کرنل اور اسسٹنٹ کمشنر بھائیوں کی مبینہ طور کی طالبان کی تحویل سے دو مختلف ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں، جس میں مغویوں نے حکومت سے اپنی رہائی کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ’نامعلوم‘ مطالبات تسلیم کرنے کی اپیل کی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق لیفٹیننٹ کرنل خالد عامر اور اسسٹنٹ کمشنر آصف عامر، اپنے تیسرے بھائی فہد عامر اور ایک بھتیجے سمیت ان 4 افراد میں شامل ہیں، جنہیں مسلح افراد نے گزشتہ بدھ کی شام عسکریت پسندی سے متاثرہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ان کے والد کے جنازے میں شرکت کے دوران اغوا کرلیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی آئی خان حملے میں ملوث تحریک جہاد پاکستان کا کالعدم ٹی ٹی پی سے کیا تعلق ہے؟
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی آئی خان پولیس کے افسر نے بتایا کہ اہلکاروں کے اغوا کا واقعہ تھانہ کلاچی کی حدود میں پیش آیاتھا، تینوں مغوی بھائی سرکاری ملازمین ہیں جبکہ چوتھا ان کا بھتیجاہے، سرکاری افسر اپنے والد کے جنازے میں شرکت کے لیے آبائی علاقے آئے تھے، جہاں وہ مستقل رہائش نہیں رکھتے تھے۔
مغوی لیفٹیننٹ کرنل خالد عامر نے 35 سیکنڈ کی ویڈیو میں بتایا ہے کہ وہ محفوظ اور ٹھیک ٹھاک ایک دور دراز علاقے میں طالبان کی تحویل میں ہیں جہاں پاکستانی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ’ ہم حکومت اور اپنے اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری رہائی کے لیے طالبان کے مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کیا جائے۔‘
مزید پڑھیں: سی ٹی ڈی کی ڈیرہ اسماعیل خان میں کارروائی ، 4 دہشت گرد گرفتار
ویڈیو کے پس منظر میں روایتی لباس میں ملبوس 2 آدمی اسالٹ رائفلیں پکڑے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں، جن کے چہرے جان بوجھ کر ویڈیو فریم سے باہر رکھے گئے ہیں، ایک دوسری ویڈیو میں اسسٹنٹ کمشنر آصف عامر بھی کم و بیش اپنے بھائی کے پیغام کو ہی دہراتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
’فاتحہ خوانی کے لیے بیٹھے تھے‘
پولیس آفیسر کے مطابق نماز جنازہ اور تدقین کے بعد تینوں بھائی مسجد میں فاتحہ خوانی کے لیے بیٹھے تھے کہ شام 6 بجے کے قریب نامعلوم مسلح افراد وہاں پہنچے اور تینوں بھائیوں کو بھتیجے سمیت اسلحے کی نوک پر اغوا کرکے لے گئے، موقع پر موجود کوئی دوسرا شخص کچھ نہیں کر سکا۔
مزید پڑھیں: ڈی آئی خان:مردم شماری ٹیم پر حملہ، کالعدم تنظیم نے ذمہ داری قبول کر لی
پولیس کے مطابق جس علاقے میں واقعہ پیش آیا، وہاں حالات پہلے ہی ٹھیک نہیں تھے جبکہ خاندان کے افراد نے پولیس کو بتایا کہ بھائیوں کو آبائی علاقے میں حالات کا اندازہ تھا، تاہم وہ غم اور صدمے میں تھے اور چونکہ ایسے مواقع پر کوئی اس نوعیت کی حرکت نہیں کرتا اس لیے پولیس سیکیورٹی بھی نہیں لی گئی تھی۔
پولیس حکام اس واقعے پر بہت زیادہ تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، تاہم پولیس ذرائع نے بتایا سرچ آپریشن جاری ہے لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہوسکی ہے۔
مغوی طالبان کی تحویل میں؟
تینوں سرکاری افسران اور ان کے بھانجے کے اغوا کے تقربیاً 24 گھنٹوں بعد دونوں بھائیوں کی الگ الگ مختصر ویڈیو مبینہ طور پر طالبان نے ریلیز کی ہیں جس میں مغویوں کو اپنی بازیابی کے لیے حکومتی اقدامات کی اپیل کرتےہوئے دیکھا جاسکتا ہے، دونوں ویڈیوز ایک ہی مقام پر ریکارڈ ہوئی ہے، جہاں پس منظر میں سیاہ رنگ کا کپڑا ہے۔
مزید پڑھیں: ڈی آئی خان:مردم شماری ٹیم پر حملہ، کالعدم تنظیم نے ذمہ داری قبول کر لی
ایک ویڈیو کا دورانیہ 35 سیکنڈ دوسری کا 47 سیکنڈ ہے اور اپیل بھی تقربیاً ایک ہی ہے، زرائع کا بتانا ہے کہ مغوی طالبان کی تحویل میں ہیں اور ان کی رہائی کے لیے حکومت سے مطالبات کیے جا رہے ہیں، جن میں کچھ طالبان کی رہائی بھی شامل ہے، تاہم آزادانہ طور اس کی تصدیق نہ ہو سکی ہے۔
’سوشل میڈیا پر شور کے بجائے حکومت سے اپیل کرے‘
دونوں ویڈیوز میں مغوی بھائی بتاتے ہیں کہ وہ طالبان کی تحویل میں خیریت سے ہیں، انہیں پاکستانی علاقوں سے بہت دور پہنچا دیا گیا ہے، جہاں حکومتی عملداری نہیں ہے، اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے حکومت اور حکام بالا سے اپنی رہائی کی اپیل کرتے ہوئے کالعدم ٹی ایل پی کے مطالبات کو تسلیم کرنے پر زور دیا ہے تاکہ وہ اپنے پیاروں سے مل سکے۔
مزید پڑھیں: فتنہ خوارج سے متعلق اہم دستاویزات سامنے آ گئیں، پاکستان کا عالمی برادری سے نوٹس لینے کا مطالبہ
وہ ویڈیو میں وہ مزید کہتے ہیں کہ ان کے خاندان کے افراد، دوست اور رشتہ دار سوشل میڈیا پر زیادہ شور یا بات چیت نہ کریں بلکہ حکومت اور اعلی حکام سے اپیل کریں تاکہ ان کی رہائی یقینی ہو۔
سرکاری سطح پر ابھی تک کسی نے مغویوں کی طالبان کے تحویل میں ہونے کی تصدیق نہیں کی ہے اور نہ ابھی تک معاملے پر کوئی موقف سامنے آیا ہے جبکہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے آبائی حلقے میں رونما ہونیوالے اس اغوا کا واقعہ پیش آیا ہے لیکن ابھی تک اس معاملے پر صوبائی حکومت بھی خاموش ہے اور کوئی موقف دینے کو تیار نہیں۔