الیکشن التوا کیس : پنجاب میں الیکشن 14 مئی کو ہوں گے، سپریم کورٹ

منگل 4 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیف جسٹس عمر عطابندیال مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا ۔ کہا الیکشن 90 دن سے آگے نہیں جا سکتے۔ سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا ۔

عدالت نے 22 مارچ کا کمیشن نے فیصلہ ختم کر دیا۔ کمیشن کے غیر قانونی حکم کی وجہ سے تیرہ دن کا نقصان ہوا۔ اب پنجاب میں الیکشن 14 مئی کو ہوں گے ۔ الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر کی تاریخ دے کر دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔

عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو  21 ارب روپے جاری کئے جائیں ۔الیکشن کمیشن  10 اپریل کو فنڈز کی وصولی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائے۔ فنڈز نہ جمع کروانے کی صورت میں عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔

 

const.p._5_2023_04apr2023 by Fahim Patel on Scribd

 

الیکشن کی تاریخ بڑھانے کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس نہیں تھا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ الیکشن پروگرام میں تبدیلیاں کی جائیں۔ فیصلے میں انتخابی شیڈول سے متعلق کہا گیا ہے کہ 10 اپریل تک کاغذات نامزدگی جمع کروائے جا سکتے ہیں اور 17 اپریل تک واپس لیے جا سکتے ہیں۔

اسی طرح 18 اپریل کو نظرثانی شدہ فہرستیں جاری کی جائیں۔ حتمی لسٹ 19 اپریل تک جاری کی جائے۔ تمام مراحل کے بعد 20 اپریل کو انتخابی نشان جاری کردیے جائیں گے۔

اگر حکومت نے الیکشن کمیشن کی معاونت نہ کی تو کمیشن سپریم کورٹ کو آگاہ کرے۔ پنجاب کی نگران حکومت، سیکریٹری اور آئی جی 10 اپریل تک الیکشن کی سیکیورٹی کا مکمل پلان پیش کریں۔

وفاقی حکومت، فوج اور رینجرز سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سیکیورٹی فراہم کرے۔ اگر احکامات پر کسی نے تعاون نہ کیا تو الیکشن کمیشن عدالت سے رجوع کرے۔

عدالت نے ازخود نوٹس کیس پر 4/3 کے فیصلے کے دعوے کو بھی مسترد کردیا ۔ کہا جسٹس قاضی فائز عیسی نے جو فیصلہ کیا اس کا ہمارے بینچ پر کوئی اثر نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصورعلی شاہ کا یہ کہنا غلط ہے کہ فیصلہ چار تین سے مسترد ہو چکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے عدالتی فورم سے رجوع کیا جائے۔


سپریم کورٹ سے ایسے فیصلے کی توقع ہے جو ملک کو بحران سے نکالے: رانا ثناءاللہ

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سے ایسے فیصلے کی توقع ہے جو ملک کو بحران سے نکالے۔ انصاف ہوتا نظر آنا چاہئے. فیصلہ ایسا ہونا چاہئے جس سے معاملات آگے کی جانب بڑھتے نظر آئیں۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ء ثنا اللہ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مؤقف پوری قوم کی آواز ہے۔ سارے حربے ناکام ہونے پر عمران خان نے اسمبلیاں توڑیں۔ سیاسی عدم استحکام سے ملک معاشی بحران کا شکار ہوا۔

وزیر داخلہ نے کہا 2 صوبائی اسمبلیوں کے پہلے انتخابات ملک کو انارکی کی جانب دھکیلیں گے۔ پورے ملک میں ایک ہی روز انتخابات ہونے چاہئیں۔ فل بینچ کا مطالبہ ہر طرف سے آ رہا ہے۔ جمہوریت ہی ملک کے مسائل کا حل ہے۔

رانا ثنا ء اللہ نے کہا وزیراعظم نے حکومتی مؤقف پوری وضاحت سے پیش کر دیا۔ عمران خان کی وجہ سے ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہوا۔ عدالتی بحران کی بنیاد فتنہ خانہ نے ڈالی۔


وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو سپریم کورٹ داخل ہونے سے روک دیا گیا

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ جب الیکشن التوا کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ پہنچے تو پولیس اہلکاروں نے انہیں روکنے کی کوشش کی مگر جب انہوں نے اپنی شناخت کروائی تو انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی مگر ان کے ساتھ آنے والوں کو باہر ہی روک لیا گیا۔  واضح رہے کہ آج کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں


نا منظور نا منظور ، تین رکنی بینچ نا منظور

رہنما مسلم لیگ ن عطا تارڑ کی ن لیگ کے وکلا کے ہمراہ سپریم کورٹ کے باہر شدید نعرے بازی۔ نامنظور نامنظور، تین رکنی بینچ نامنظور کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ وکلا کا کہنا ہے کہ ’ یہ جو کالا کوٹ ہے، میاں تیرا ووٹ ہے‘۔ دو نمبر بینچ نامنظور اور جج صاحب انصاف دو کے نعرے بھی لگائے جا رہے ہیں ۔


پاکستان کے 2 صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابات ملتوی کیے جانے سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا 3 رکنی بینچ آج فیصلہ سنائے گا۔

انتخابات کے التوا کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے دائر کی گئی اپیل پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بننے والے 3 رکنی بینچ نے گزشتہ روز دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

عدالت نے وزارتِ دفاع سے سیکیورٹی صورتحال سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کو بھی کہا ہے۔

خیال رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں انتخابات کروانے کی آئینی ذمہ داری پوری نہ کرنے پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صدرِ مملکت سے تاریخ لینے کی ہدایت کی تھی تاہم الیکشن کمیشن نے سیکیورٹی اداروں اور وزارتِ خزانہ سے مشاورت کے بعد 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرتے ہوئے اس کا شیڈول معطل کردیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد سپریم کورٹ نے معاملہ دوبارہ اٹھاتے ہوئے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کیے تھے۔

اس کیس کی سماعت کا آغاز 5 رکنی بینچ نے کیا تھا تاہم پہلے جسٹس امین الدین خان کی بینچ سے علیحدگی کے بعد چیف جسٹس کو نیا بینچ تشکیل دینا پڑا تھا جس کے اگلے ہی روز جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کیس کی سماعت کرنے سے معذرت کرلی تھی اور معاملہ ایک بار پھر نئے بینچ کی تشکیل کی طرف چلا گیا تھا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ پر حکومتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور اس کی وفاقی حکومت نے عدم اعتماد کا اظہار کردیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وکلا کو عدلیہ کے ساتھ اظہارِ یکخہتی کے لیے سپریم کورٹ پہنچنے کی کال دی گئی۔

پیر کے روز چیف جسٹس نے حکومتی اتحاد کے وکلا کو سننے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ بائیکاٹ کرچکے ہیں اور اس کے بعد عدالت کیوں آئے ہیں تاہم وکلا کے اصرار پر چیف جسٹس نے تحریری معروضات جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے پیر کو سماعت کے اختتام پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اب بھی وقت ہے سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر معاملہ حل کرلیں ورنہ آئینی مشینری استعمال کی جائے گی۔

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج سنایا جائے گا۔

پیر کو چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں التوا کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ‘آئین میں واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں۔ مذاکرات کے آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا۔ لوگ کہتے ہیں وہ آئین سے بالاتر ہیں۔ لوگ من پسند ججوں سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔’

سماعت کے موقع پر جہاں عدالت کے اندر فریقین ایک دوسرے کو زِیر کرنے اور عدالت کو قائل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے وہیں عدالت کے باہر بھی پاکستان تحریک انصاف کے وکلا چیف جسٹس سے اظہارِ یکجہتی کے لیے جمع ہوئے تھے۔

طویل عرصے بعد شاہراہِ دستور پر کالے کوٹوں میں ملبوس وکلا چیف جسٹس کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے دکھائی دیے لیکن ان نعروں میں وہ رنگ ڈھنگ نہیں تھا جو 2007ء کی وکلا تحریک کے دور میں دیکھنے کو ملتا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp