ڈر ہے کہ کوئی مجھ سے میری عمر نہ پوچھ بیٹھے ورنہ میں بتاتا کہ فیصل آباد میں، میں نے ڈبل ڈیکر چلتے دیکھی ہے۔ مدن پورے سے نڑ والا چوک پھر سرکلر روڈ سے ہوتے ہوئے جانے کہاں کہاں، لیکن یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہ شہر لائل پور کہلاتا تھا۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ جب پگڑی والے مزدوروں، پینٹ پہننے والے بابوؤں اور اسکول کالج جانے والے ماؤں کے راج دُلاروں اور راج دلاریوں کو اپنی گود میں بٹھاتی، اتارتی لال سرخ ڈبل ڈیکر دکھائی دیتی تو کتنی خوشی ہوتی۔ یہ یاد آتی ہے تو جانے کیوں مجھے کسی گانے کے بول یاد آتے ہیں
’میں لیل پوروں منگوایا جھمکا چاندی دا‘
پھر وقت کی دھول میں مجھے ڈبل ڈیکر کے بھاری انجن کی آواز معدوم ہوتی سنائی دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کے بھونپو کی آواز میں چاندی کی طرح کھنکتے ہوئے کچھ قہقہے اور دبی دبی ہنسی میں ایک دو لفظ سنائی دیتے ہیں:
’چھڈ نی‘
اس بھولے بسرے فیصل آباد یا لائل پور کی جب بھی یاد آتی ہے، یادوں کی آندھی زور سے چلتی ہے اور نانا جی کی مہربان گود میں بیٹھا ایک بچہ یاد آتا ہے، جس کی ٹھوڑی پر پوپلے منہ سے لیے جانے والے ایک بوسے کے بعد محبت بھری مگر کمزور آواز سنائی دیتی ہے، پڑھو:
’ لَا اِلہ’ اِلا للہ‘
پھر ایک بوسا اور ایک ٹافی۔ یہ خوشبو دیتی یادیں ہجوم نہ کرتیں، اگر ایک فون میرے دل میں ہلچل نہ مچاتا:
’بھائی جان! کتاب لکھ دی ہے، اب 2 سطریں آپ بھی لکھ دیں۔‘
یہ محمد اظہر حفیظ تھے۔ اس شخص سے ملاقاتیں تو بس 2، 3 ہی ہیں۔ زیادہ رابطہ فون کے ذریعے رہا ہے۔ وہ بات کر رہے تھے اور مجھے لگ رہا تھا کہ جان چھڑا رہے ہیں۔ سبب عجیب سا تھا۔ یوں لگا کہ عادت کے بر عکس تیز تیز بول رہے ہیں اور باتوں کے بیچ کوئی اجنبی سی چیز رڑک بھی رہی ہے۔ میں نے کہا کہ میں کچھ دیر میں فون کرتا ہوں، آپ کھانا کھا لیں۔ کہنے لگے:
’ نہیں بھائی جان! چنے چبانے کی کوشش میں ہوں۔ دانت فارغ ہیں، اس لیے یہ کیفیت ہے۔ فون بند نہ کرنا میں نے ’کلے‘ میں دبا لیے ہیں ‘۔
لوگوں کو ’کلے‘ میں پان دباتے تو دیکھا سنا تھا، چنے دبانے کی بدعت پہلی بار سنی۔ میری ہنسی چھوٹ گئی اور میں نے پوچھا کہ یار، اظہر بھائی! آپ ایسی باتیں کیسے کر لیتے ہو؟
’لائل پور نے سکھائی ہیں‘
اس بار چنوں کی مداخلت کے بغیر جواب ملا۔
کوئی 8، 9 برس ہوتے ہیں، میں اور ایوان صدر کے میرے ایک رفیق کار گلی کے کونے پر کھڑے شیری سے راستہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ 9، 10 برس کے ایک بچے پر نگاہ پڑی۔ جس نے سیدھا چلتے چلتے اچانک روٹ بدل کر ہماری طرف رخ کر لیا تھا۔ وہ بچہ ہم 3 میں جب چوتھا ہو گیا تو شیری نے آنکھ کے اشارے سے اس سے سوال کیا کہ کیا مسئلہ ہے؟ اس کی آنکھ میں شرارت مسکرائی اور وہ بے ساختہ کہنے لگا:
’میں سمجھیا، لڑائی ہو گئی اے۔‘
برادرم محمد اظہر حفیظ کی جگت سن کر مجھے اس واقعے کی یاد آئی۔ ہم اس بچے کی بات سن کر دیر تک ہنستے رہے۔ یہی واقعہ تھا جس نے میرے دل میں ایک خواہش جگائی۔ خواہش بڑی عجب تھی۔ یہ شہر شاعروں اور ادیبوں سے لبا لب بھرا ہوا ہے۔
ہمارے دوستوں میں نمایاں ترین تو محمد حمید شاہد ہیں، جنہوں نے اس شہر کا پانی پیا اور ان کی رگ رگ میں ادب خون بن کر دوڑنے لگا۔ میرے ہم عمروں میں اشفاق احمد کاشف اور امجد حسین امجد ہیں جن کی شاعری کی خوشبو نیند کے عالم میں بھی محسوس ہوتی ہے۔
دوست اپنی جگہ بزرگوں میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ بابا عبیر ابوذری، ڈاکٹر ریاض مجید، ڈاکٹر انور محمود خالد اور برادر ڈاکٹر انعام الحق جاوید سمیت بہت سے دوسرے شاعروں اور ادیبوں کی کہکشاں۔ امنگ یہ تھی یہ سارا ادب اور شاعری بر حق لیکن کوئی تو ہو جو اس شہر کی خوشی، شرارت اور اپنے منفرد مزاح میں دھلی ہوئی جگت بھی قلم بند کرے۔
اس شہر کے مزاج کا یہ پہلو ایسا ہے جس کی کہانی لکھی گئی تو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ تو کیا، اس سے بڑا بھی کوئی ریکارڈ ہے تو اسے بھی توڑ ڈالے گی۔
اب میں یہ کیسے کہوں کہ یہ کام ہمارے سینے میں دل کی طرح دھڑکنے والے محمد اظہر حفیظ نے کر ڈالا ہے۔ فیصل آباد یا لائل پور اور اس کے رہنے والوں کے مزاج کی یہ کیفیت ایسی ہے جس کا ہمارے جیسا کوئی قدر دان لاکھ تذکرہ کرے، اہتمام کے ساتھ اس کی کہانی کہے، سچ یہ ہے کہ اس کا حق ادا ہو سکتا ہے اور نہ نک سک سے درست اس شہر کا جملہ جوں کا توں دہرا سکتا ہے۔ ہاں کسی لائل پوریے کی بات الگ ہے تو بھائیو اور بہنو! لائل پوریے کی ’لائل پوریا‘ پڑھیے اور اس میں کھو جائیے۔ مجھے اجازت دیجئے۔