پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں آپ کو ہر شخص ایک ہی وقت میں وکیل، منصف، طبیب، مریض، معیشت دان الغرض کسی بھی شعبے کا نام لیں یا بحث شروع کریں اس پر اپنی ماہرانہ رائے دینا شروع کردے گا۔
یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز میں ہر دن کوئی نہ کوئی ہنگامہ بپا رہتا ہے۔ مملکتِ خداد میں ویسے تو مسائل کی کمی نہیں لیکن اگر کسی دن کوئی مسئلہ سامنے نہ آئے تو زبردستی کا کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کردیا جاتا ہے اور اس طرح کے مسائل اور واقعات سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔
ہماری قوم سکون سے بیٹھنے کی عادی نہیں اسی لیے انفرادی طور پر اور معاشرتی طور پر کوئی نہ کوئی مسئلہ تلاش کرنے یا تراشنے میں پوری تگ و دو کرتی ہے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ پچھلے ہفتے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ کیمیا کے ایک پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض کے ساتھ پیش آیا۔ ڈاکٹر ریاض کے مبیّنہ طور پر اغوا کی خبر سوشل میڈیا پر آئی کہ انہوں نے کراچی یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ میٹنگ میں شرکت کرنی تھی جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کے ڈگری کے معاملے پر کوئی بحث ہونی تھی اور فیصلہ کیا جانا تھا لیکن میٹنگ سے پہلے ہی ان کو اغوا کرلیا گیا۔
یہ خبر سوشل میڈیا پر اس قدر وائرل ہوئی کہ پورے ملک میں ایک بھونچال آگیا۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر ریاض کو ایک مقامی تھانے میں پیش کردیا گیا اور ڈاکٹر صاحب نے اپنا بیان سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ایکس پر پوسٹ کیا۔
ڈاکٹر ریاض کی دن کے وقت گرفتاری سے لیکر رات کو رہائی تک سوشل میڈیا پر ہزاروں قسم کی سازشی تھیوریاں تراشی گئی۔ ہر شخص اپنے طور پر آئینی و قانونی ماہر کے ساتھ ساتھ ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ اور حق پرست بنا رہا۔ لیکن کسی نے بھی بنیادی معلومات جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اصل معاملہ کیا تھا؟
کہا جارہا تھا کہ سنڈیکیٹ پر بیرونی دباؤ تھا کہ معزز جج کی ڈگری کو ہر حال میں جعلی قرار دیا جائے اور ڈاکٹر ریاض کو کسی صورت میٹنگ میں شرکت نہیں کرنے دینی چاہیے، مگر اس حوالے سے کسی نے بات ہی نہیں کی۔
پہلی بات یہ کہ کراچی یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ کے 22 ممبران ہیں۔ گویا ڈاکٹر ریاض کے علاوہ سنڈیکیٹ کے 21 ممبران اور بھی ہیں۔ کسی نے بھی یہ زحمت گوارا نہیں کی کہ باقی کے سنڈیکیٹ ممبران سے رابطہ کرکے یہ پوچھا جائے کہ آیا ان پر بھی ڈاکٹر ریاض کی طرح کوئی دباؤ تھا کہ معزز جج کی ڈگری کو ہر حال میں جعلی قرار دیا جائے؟ اگر کوئی دباؤ تھا تو کیا انہوں نے اس دباؤ کے حوالے سے اپنا احتجاج یا شکایت کہیں درج کرائی؟ اگر دباؤ نہیں تھا تو اکیلے ڈاکٹر ریاض پر ہی کیوں دباؤ ڈالا گیا؟ کیا ان کے ایک ووٹ سے فیصلہ تبدیل ہوسکتا تھا؟
اس سنڈیکیٹ میں شعبہ تدریس کے علاوہ دیگر محکموں، اداروں اور فیلڈز سے بھی کچھ ممبران ہیں جن میں قابلِ ذکر سندھ ہائیکورٹ کے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس محمد شفیع صدیقی بھی شامل ہیں۔ چیف جسٹس خود سنڈیکیٹ میٹنگ اٹینڈ نہیں کرتے تاہم ہائیکورٹ کے کسی اور جج کو اس کے لیے نامزد کیا جاتا ہے۔
اب چونکہ اس میٹنگ میں معاملہ ایک ہائیکورٹ کے جج کی ڈگری سے متعلق تھا تو کیا سندھ ہائیکورٹ کے نامزد کردہ جج نے میٹنگ میں شرکت کی؟ اگر نہیں کی تو اس کی کیا وجہ ہے؟
سوشل میڈیا پر جاری اس بحث میں ہر شخص اپنے طور پر منصف بھی اور وکیل بھی بنا رہا اور ڈاکٹر ریاض کی بہادری اور حق گوئی کے قصیدے پڑھتا رہا لیکن کسی نے ان بنیادی سوالات کے جوابات نہیں ڈھونڈے۔
گوکہ سنڈیکیٹ کے کچھ ممبران نے بعد میں میڈیا کو بتایا کہ معزز جج کی ڈگری کے معاملے پر نہ تو ممبران پر کوئی دباؤ تھا اور نہ ہی ان کو کوئی دباؤ میں لاسکتا ہے۔ جج صاحب کی ڈگری کے معاملے پر مکمل شفافیت برتی گئی ہے اور تمام تر ریکارڈ اور ثبوتوں کے بعد ہی سنڈیکیٹ نے اس فیصلے کی منظوری دی ہے۔
ڈاکٹر ریاض کا اغوا یا گرفتاری ایک قابلِ مذمت عمل ہے اور کسی بھی استاد کا اس طرح دن دہاڑے اٹھائے جانے کا کسی طرح بھی دفاع نہیں کیا سکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ قوم سے بھی درخواست ہے کہ ہر معاملے کا ماہر بنتے ہوئے اپنے فیصلے دینا چھوڑ دیں۔
یہ قوم پہلے ہی مذہب اور اب سیاست کے نام پر اس قدر تقسیم ہوچکی ہے کہ مخالف نظریات کو برداشت کرنے کا کلچر تقریباً ناپید ہوچکا ہے۔ اس تقسیم شدہ قوم میں مزید پھوٹ اور دراڑیں ڈالنے کی بجائے کوئی مثبت اور تعمیری کام میں خود کو مصروف کریں۔ اس سے آپ کا انفرادی طور پر بھی فائدہ ہوگا اور ملک و قوم کا بھی بھلا ہوگا۔