برطانیہ کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات کے 350 لائسنسوں میں سے 30 کو معطل کر دے گا کیوں کہ خدشہ ہے کہ یہ ہتھیار بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنے پر کینیڈین وزیرخارجہ کیخلاف مقدمہ دائر
الجزیرہ کے مطابق سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے پیر کو پارلیمنٹ کو بتایا کہ جزوی پابندی میں حماس کے خلاف غزہ کے موجودہ تنازعے میں استعمال ہونے والی اشیا کا احاطہ کیا گیا ہے لیکن اس میں F-35 لڑاکا طیاروں کے پرزے شامل نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لائسنسوں کی معطلی کا فیصلہ ہتھیاروں پر کلی پابندی کے مترادف نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ بین الاقوامی قانون کے مطابق اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
جولائی میں لیبر پارٹی کے عام انتخابات جیتنے کے فوراً بعد ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ وہ برطانیہ کے اتحادی اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت کے بارے میں جائزہ لیں گے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی تعمیل میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اسرائیل کو برطانیہ کے بعض ہتھیاروں کی برآمدات کے بارے میں واضح خطرہ نظر آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے یا سہولت فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیے: بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو ایک ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار فراہم کرنے کی تیاری کرلی
دریں اثنا قطر یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر حسن براری نے کہا ہے کہ برطانیہ کا فیصلہ بہت اہم ہے کیونکہ اس نے 7 اکتوبر سے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کی ہے۔
تاہم حسن براری کا کہنا تھا کہ یہاں ایک دھوکہ ہے کیونکہ اپنے دفاع کے حق اور اسرائیل کی نسل کشی کے درمیان بہت فرق ہے اس لیے ہم نے برطانوی حکومت کی طرف سے اسرائیلی حکومت کے اس کام پر تنقید نہیں سنی ہے۔
برطانوی برآمدات اسرائیل کو حاصل ہونے والے کل ہتھیاروں کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ ڈیوڈ لیمی نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ معطلی کا اسرائیل کی سلامتی پر کوئی مادی اثر نہیں پڑے گا۔
معطلی کی زد میں آنے والی اشیا میں لڑاکا طیارے، ہیلی کاپٹر اور ڈرون سمیت فوجی طیاروں کے پارٹس شامل ہوں گے۔
مزید پڑھیے: اسرائیلی ٹینک نے اپنے ہی 5 فوجیوں کی جان لے لی
واضح رہے کہ امریکا کے برعکس برطانیہ کی حکومت اسرائیل کو براہ راست ہتھیار نہیں دیتی بلکہ کمپنیوں کو ہتھیاروں کی فروخت کے لیے لائسنس جاری کرتی ہے۔ اس عمل میں وکلا کی رائے بھی شامل ہوتی ہے کہ آیا اسرائیل بین الاقوامی قانون کی پاسداری کر رہا ہے یا نہیں۔