افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پیر کو ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں 6 افراد جاں بحق اور 13 زخمی ہو گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کابل :فوجی ائیرپورٹ کے باہر دھماکا، 10 افراد ہلاک
واضح رہے کہ 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں تشدد کے واقعات میں کمی آئی ہے، تاہم متعدد مسلح گروہ ابھی بھی سرگرم عمل ہیں، جن میں دولت اسلامیہ کی علاقائی شاخ بھی شامل ہے۔
کابل کے جنوبی مضافات کے علاقے قلعہ بختیار میں پیر کی سہ پہر ہونے والے اس خود کش حملے کی فوری طور پر کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران کا کہنا ہے کہ دھماکا خیز مواد سے بھری خود کش جیکٹ پہنے ایک شخص نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا، جاں بحق ہونے والوں میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں:کابل میں وزارت خارجہ کی عمارت کے قریب دھماکا، 20 افراد ہلاک
خالد زدران نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ زخمیوں کو بروقت اسپتال منتقل کردیا گیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔
افغانستان کے طالبان حکام نے 3 سال قبل غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد اقتدار میں آنے کے بعد سے قومی سلامتی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ ان کی وسیع پیمانے پر سیکیورٹی کارروائیوں کی وجہ سے ان کی حکومت کو چیلنج کرنے والے عسکریت پسندوں کی تعداد میں کمی ضرور آئی ہے، لیکن دہشتگردانہ کارروائیوں کا مکمل خاتمہ بھی نہیں ہوا ہے۔
افغانستان کے جنوبی شہر قندھارمیں مارچ میں آخری خودکش حملے کی ذمہ داری داعش کی علاقائی شاخ نے قبول کی تھی جو طالبان کا تاریخی گڑھ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستانی سفارتخانے پر حملے میں ملوث داعش کے دہشت گرد مارے گئے، ذبیح اللہ مجاہد
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ ماہ ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ داعش یہاں پہلے بھی موجود تھی لیکن ہم نے انہیں سختی سے کچلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ایسا کوئی گروپ موجود نہیں ہے جو کسی کے لیے خطرہ بن سکتا ہو۔