’قیمت‘

منگل 3 ستمبر 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خوش مزاج بریگیڈیئر (ر) عبدالرحمٰن تارڑ سے کئی برس قبل پہلی ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں ملتے ہی کہا، ’آپ تو شریف آدمی ہیں، بریگیڈیئر نہیں لگتے‘۔

تارڑ صاحب نے اسی ملاقات میں اپنی ایک کتاب ’چینامی‘ کا بتایا، جو چین اور چینی معاشرے کے حوالے سے ان کی تجربات پر مبنی ہے۔ میرا اندازہ تھا یہ بس ویسی ہی روایتی یا نصابی سی کتاب ہو گی جس طرح ہمارے کچھ ریٹائرڈ سول یا ملٹری بیورو کریٹ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے شوق کی خاطر اور یہ بتانے کے لیے لکھتے ہیں کہ ’میں نے بھی کتاب لکھی ہے‘۔ بعد ازاں یہ کتاب ہاتھ لگی تو اسے معلوماتی اور دل چسپ پایا۔

بریگیڈیئر صاحب سے کبھی عید شب برات پر تہیناتی پیغامات کا تبادلہ ہو جاتا تھا۔ جولائی کے وسط میں انہوں نے اپنی نئی کتاب ’قیمت‘ کا ٹائٹل وٹس ایپ کیا۔ انہیں نئی کتاب کی اشاعت پر مبارک باد دی۔

ٹائٹل دیکھ کر علم ہوا کہ چند برس قبل شمالی علاقہ جات میں ’تحریکِ طالبان سوات‘ کی شکل میں سر اُٹھانے والے فتنے کے خلاف اعصاب شکن اور انتہائی کھٹن لڑائی لڑنے والے شانگلہ کے رستے سوات میں داخل ہونے والے پہلے دستے کی قیادت عبدالرحمٰن تارڑ کر رہے تھے۔

اسی لڑائی کی داستان ’قیمت‘ کتاب میں تارڑ صاحب نے درج کی ہے۔ ’قیمت‘ ’جو پاکستانی قوم ادا کررہی ہے‘۔

کتاب پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ شخص جس کو میں نے خُو بُو سے پاک ایک سادہ، شریف آدمی پایا، دراصل وہ کتنا بڑا آدمی ہے۔ وہ نہ صرف پاکستانی فوج کا بلکہ قوم کا بھی ہیرو ہے۔ وہ ہیرو جسے کسی صلے کی تمنا ہے نہ ستائش کی آرزو۔

کتاب میں صرف فوجی کارناموں کا بیان نہیں بلکہ حالات کا پس منظر اور پیش منظر بہت دیانت داری سے پیش کیا گیا ہے۔ پاکستانی قوم کو جس ہشت پہلو لڑائی کا سامنا تھا وہ ابھی بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ ان حالات میں جب دشمن کی کوئی واضح شکل نہ ہو اور اس صورتِ حال میں جب اپنے پرائے میں تمیز کرنا مشکل ہو تو لڑائی لڑنا بہت دشوار ہے۔

ایک طرف آپ جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنی طرف سے لوگوں کی حفاظت کے لیے قربانیاں دے رہے ہوں اور دوسری طرف ’یہ جو وردی ہے اس کے پیچھے دہشت گردی ہے‘ کے نعرے لگیں۔ آپ خود سوچیں اس صورتِ حال میں وہ سپاہی کس ذہنی کرب سے گزر تے ہوں گے جنہیں نہ صرف خود آئے روز موت کا سامنا کرنا پڑے بلکہ کبھی اپنے شہید ساتھیوں کے تابوت اُٹھانے پڑیں اور کبھی زخمیوں کو سنبھالنا۔

تارڑ صاحب ایک جگہ ایسا ہی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں، “شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر ایک رات گلی باغ کے نزدیک علاقے کا محاصرہ کر لیا اور تلاش شروع کر دی۔ میں اس دوران ایسے مکان کی چھت پر چڑھ گیا جہاں سے ارد گرد کے علاقے پر نظر رکھی جا سکتی تھی۔ کچھ دیر بعد اندر سے ایک نوجوان لڑکی ایسے وقت صحن میں نکلی جب اس کے ارد گرد والے ڈر کے مارے اندر دُبکے ہوئے تھے۔ میں ابھی اس کی دلیری اور اعتماد کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اس نے ایسی بات کی جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ ’پہلے ان درندوں کو تباہی مچانے کے لیے بھیجتے ہو اور جب وہ چلے جاتے ہیں تو ہماری زندگی عذاب بناتے ہو اور رہی سہی کسر آ کر نکالتے ہو‘۔”

بریگیڈیئر تارڑ کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے یہ کتاب صرف فوجی نقطہ نظر سے نہیں لکھی بلکہ انہیں پوری طرح سے زمینی حقائق اور حالات کا بھی ادراک ہے۔ سیاسی قیادت میں سیاسی عدم پُختگی کی وجہ وہ طلبا یوننز پر پابندی کو گردانتے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داریوں سے بھی وہ پوری طرح آگاہ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، “جب ریاست عوام کو بے آسرا چھوڑ دیتی ہے تو ان کے شدت پسندی کا راستہ اختیار کرنے کی مجرم بھی وہی ہوتی ہے”۔

سوات میں جن مشکل حالات میں پاکستان کی فوج نے دہشت گردی کے عفریت کے خلاف ایک غیر روایتی جنگ کامیابی سے لڑی، بریگیڈیئر تارڑ کی کتاب ’قیمت‘ پڑھ کر قاری کو اس کا پورا حساس ہوتا ہے۔ افضل لالہ جیسے کرداروں اور سوات کے عام لوگوں کی قربانیوں کا تذکرہ کرنا بھی وہ نہیں بھولے۔ پولیس کے کردار کو جس طرح انھوں نے تسلیم کیا ہے وہ ان کی سماجی اور انتظامی دانش مندی کا ثبوت ہے۔

فوج کے سیاسی کردار کے حوالے سے بھی ان کے تحفظات ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، “نئی صدی کا سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی پاکستان کی مسلح افواج کو جن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، ان میں مسلسل اضافے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ملکی اور عسکری قیادت ایسی شخصیت کے پاس تھی جو عالمی ہیجان کے دور میں ملک کی بھاگ ڈور سنبھالے ہوئے تھی، لہذا سیاسی مسائل کے باعث اس کی عسکری معاملات پر توجہ ویسی نہیں تھی جیسی بیک وقت کئی محاذوں پر بر سرِ پیکار فوج کے سربراہ کی ہونی چاہیے۔ چنانچہ جب کمان جنرل کیانی کو ملی تو انھیں ایک عشرے کی بے توجہی سے پیدا ہونے والی انتظامی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا”۔

کتاب میں سوات کے عام لوگوں سے لے کر فوج کے بہادر سپاہیوں، میجر طاہر جیسے جرّی افسروں، کرنل گھمن جیسے دلیر کوبرا پائلٹ اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جنگ کے غیر روایتی میدان میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے والے کمانڈوز اپنے کمانڈر اور جنرل کیانی کا تذکرہ بریگیڈیئر تارڑ نے دل کھول کر کیا ہے۔

جہاں انہوں نے فوج کی بے مثال قربانیوں کا ذکر کیا ہے وہاں انہوں نے کمی کوتاہیوں کا بھی حد میں رہتے ہوئے احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

کتاب کا ایک پورا باب سوات کی لڑائی کے حوالے سے میڈیا اور ملٹری کے دائرہِ کار کا احاطہ کرتا ہے۔

ہر باب کے آغاز میں ملکی حالات، قوم اور فوج کو پیش آمدہ معاملات اور عالمی تناطر کے حوالے سے جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس بحث کو ہر باب میں چھیڑنے کی بجائے اگر کتاب کی ابتداء میں ہی سمو دیا جاتا تو شاید باتوں کو دہرانے کا تاثر نہ ابھرتا۔ کتاب کو اچھا ایڈیٹر مل جاتا تو یہ مزید دلچسپ ہو سکتی تھی۔ بعض واقعات کو دہرانے کا تاثر بھی ملتا ہے۔ مجموعی طور پر کتاب بہت اعلیٰ کاوش ہے۔ کتاب پڑھ کر آپ کو ندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان، پاکستانی قوم اور فوج کو کس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے۔

یہ کتاب یقیناً بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے میں ممد و معاون ہوگی۔ گو کہ تارڑ صاحب کی کتاب تنقیدی نہیں مگر پاکستان کی فوجی قیادت کو چاہیے کہ وہ تنقیدی کتابوں کی بھی حوصلہ افزائی کرے۔ اس رویے سے لوگوں میں فوج سے اجنبیت کی بجائے اپنائیت بڑھے گی اور انھیں فوج کو درپیش چیلنجز کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ جنرل (ر) اسد درانی اوربھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابقہ سربراہ جے ایس دلت کے مکالمے پر مبنی کتاب پاک بھارت تعلقات کا غیر جذباتی انداز میں جائزہ لیتی ہے مگر پاکستان میں اس وقت کی فوجی قیادت نے سراہنے کی بجائے برا منایا۔ حالانکہ کتاب میں کچھ بھی قابلِ اعتراض نہیں لگتا۔

جنرل درانی ایک طرح سے ایک دانشور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی خاص طور پر اور بالعموم ریٹائرڈ فوجی افسران کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ اپنے تجربات کو تحریری شکل میں سامنے لائیں تاکہ ہر خاص و عام ان سے استفادہ کر سکے۔

’قیمت‘ کتاب میں بریگیڈیئر تارڑ نے بہت سلیقے سے اس بے چہرہ جنگ کے چہرے سے نقاب اتارا ہے جو مذہب کے نام پر پاکستانی قوم پر مسلط کی گئی۔ پاکستان کے خلاف عالمی سازشوں، لابیوں اور بھارت کے پاکستان مخالف رویے کا کتاب میں بہت شد و مدّ سے تزکرہ ہے مگر ہمارے ان اقدامات کا کماحقہ محاسبہ نظر نہیں آتا جو ہم وسیع تر قومی مفاد یا ملکی سلامتی کے نام پر دانستہ یا نادانستہ اُٹھاتے رہے۔

مجموعی طور پر کتاب میں اتنے اہم حالات و واقعات کا تذکرہ ہے کہ یہ کتاب نہ صرف عام آدمی کی دلچسپی کا باعث بنے گی بلکہ اس کتاب کو عسکری نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔

بریگیڈیئر (ر) عبدالرحمٰن تارڑ کی کتاب ’قیمت‘ کتاب نگر ہادیہ حلیمہ سنٹر، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور نے شائع کی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp