جب بنگلہ دیش نے پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کو شکست دی تو سب کا خیال یہی تھا کہ یہ محض اتفاق ہے، دوسرے ٹیسٹ میں سیریز کا برابر ہونا یقینی ہے، مگر پھر دوسرا ٹیسٹ بھی آگیا اور نتیجے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بنگلہ دیش نے تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کو ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کردیا ہے جس کے بعد ہمیں یہ اقرار کرلینا چاہیے کہ مہمان ٹیم کی یہ فتوحات محض اتفاقیہ نہیں بلکہ اس نے اچھا کھیل پیش کیا ہے۔
مگر ساتھ ہمیں یہاں قومی ٹیم کو بھی مبارکباد پیش کرنی چاہیے کہ اس کے کھیل میں بھی بہتری آئی ہے، بنگلہ دیش نے پہلا میچ 10 وکٹوں سے جیتا تھا لیکن ہمارے لڑکوں کی شبانہ روز محںت کے سبب اس بار جیت صرف 6 وکٹوں سے ملی ہے۔
اگر ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ افغانستان، امریکا اور اب بنگلہ دیش کے خلاف ہونے والی ناکامیاں زیادہ پریشان کن نہیں اور ہم کرکٹ کے میدان میں ماضی کی طرح چمکتے اور دمکتے ہی رہیں گے تو یہ خیال غلط ہے، ہمیں ہاکی اور اسکواش کو نہیں بھولنا چاہے جہاں دُور دُور تک ہمارے مقابلے میں کوئی نہیں تھا، مگر مسلسل غلطیوں اور غیر سنجیدگی کے سبب ہم نے اپنا مقام کھو دیا۔
جب ہمارے بڑے کبھی بتاتے ہیں کہ کس طرح ہاکی اور اسکواش میں ہم نے عروج دیکھا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب تباہ ہوگیا تو یقین نہیں آتا، اب یہی لمحہ ہمارے پاس بھی آچکا ہے۔ آج سے 10، 15 سال بعد جب ہم اپنے بچوں کو بتائیں گے کہ کرکٹ ایک کھیل تھا جس پر ہم نے عروج دیکھا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب تباہ ہوگیا تو شاید ہمارے بچے بھی اس بات پر یقین نہیں کریں۔
اگر بنگلہ دیشی ٹیم ہمیں اپنے ہوم گراؤنڈ پر شکست سے دوچار کرتی تو تکلیف اس قدر زیادہ نہیں ہوتی کہ ہر ٹیم کو ہوم ایڈوانٹیج ہوتا ہے، مگر ہم وہ واحد ملک ہیں جو اپنے گھر میں بھی ایسے کھیلتے ہیں جیسے کسی اور ملک میں کھیل رہے ہوں۔ نہ ہمیں وکٹ بنانے آئی اور نہ وکٹ کو ٹھیک سے ریڈ کرنا آیا، اب جب یہ 2 کام ہی ٹھیک سے نہیں ہوں گے تو ٹیم کا انتخاب کیسے ٹھیک طرح ہوگا؟
جنوبی ایشیا کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں اسپنرز نے راج کیا ہے، سری لنکا اور بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہاں جب جو مقابلے ہوئے ان میں سے اکثریت میں اسپنرز نے ہی میچ جتوائے، خود پاکستان میں ایسا ہی ہوتا آرہا تھا، مگر پھر ہمیں گرین ٹاپ وکٹ بنانے کا خیال آیا۔
ہوم گراؤنڈ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے آپ پانی ٹیم کا مضبوط پہلو دیکھتے ہیں، آپ کے پاس بیٹسمین زیادہ اچھے ہیں، فاسٹ بولرز زیادہ کمال ہیں یا اسپنرز زیادہ ہنرمند ہیں، اور اپنے انہی مضوط پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے وکٹ بنائی جاتی ہے، مگر گزشتہ 11 میچوں میں ناجانے ہم کیا کررہے ہیں کہ کسی ایک میچ میں بھی ہمیں کامیابی نہیں ملی۔
ویسے وکٹ کا قصور کتنا ہے اس پر تو بات ہوتی رہے گی لیکن سوال تو اب یہ بھی اٹھتا ہے کہ ہماری ٹیم کے مضبوط پہلو کونسے ہیں؟ فاسٹ بولرز کی بات کریں تو aggression اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اب کسی سے بولنگ ہی نہیں ہوتی، 10 وکٹیں لینا ہمارے لیے محال ہوگیا ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ، محمد حسنین، احسان اللہ، شاہنواز دھانی سمیت کئی اسپیڈ گنز مستقبل سے متعلق تسلی دے رہی تھیں مگر پھر ایک ایک کرکے یہ یا تو انجری کا شکار ہوگئے یا بغیر وجہ بتائے ٹیم سے باہر کردیے گئے۔ اب جو کچھ فاسٹ بولنگ کے شعبے میں ہورہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔
اسی طرح اسپنرز کی بات کریں تو ساجد علی نے بنگلہ دیش کے خلاف گزشتہ سیریز میں شاندار کھیل پیش کیا مگر اس بار وہ کہاں ہیں شاید ہی کسی اس کی خبر ہو، پھر ذوالفقار بابر چلتے چلتے غائب ہوگئے اور ابرابر احمد انگلینڈ کے خلاف شاندار آغاز کرنے کے بعد بالکل ہی بجھ گئے۔
باقی بلے بازوں کا ذکر کیا کریں، یہ بے چارے ہوم گراؤنڈ اور کمزور ٹیموں کا انتظار کرکے رنز پورے کرلیا کرتے تھے مگر اس بار تو ان سے یہ کام بھی نہیں ہوسکا ہے۔
بہرحال ایک تسلی ہے کہ اگلے ایک ماہ تک پاکستان کو ٹیسٹ میچ میں کوئی شکست نہیں ہوگی کیونکہ پاکستان کی اگلی سیریز اکتوبر میں انگلیںڈ کے خلاف ہے، جب تک اطمینان رکھنا چاہیے۔
ہاں، یاد آیا، ورلڈ کپ میں بدترین شکست کے بعد آپریشن کی خبریں بھی آئی تھیں مگر لگتا ہے کہ سرجن مریض کی حالت دیکھ کر گھبرا گئے ہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ اگر اس حالت میں مریض کو چھیڑا تو جو تھوڑی بہت سانسیں آرہی ہیں کہیں وہ بھی نہ چھین جائیں۔