کرکٹ ٹیم کو سرجن کی نہیں، حکیم کی ضرورت ہے۔ حکیم بھی ایسا جو حکیم الامت کی طرح دانائے راز ہو، جو روح کو تڑپا دے، جو قلب کو گرما دے۔ چیئرمین پی سی بی کو اس بات کا سہرا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے سینے پر جو دکھ تھے ان کو مسکراہٹوں میں بدل دیا۔ اب ہمارا ذکر آتے ہی اہل بنگال کے چہروں پر تبسم آتا ہے، باچھیں کھل جاتی ہیں اور وہ قہقہے لگانے لگ جاتے ہیں۔
اس سب کا سہرا وزیر داخلہ کے علم، دانش اور تدبر کو جاتا ہے کہ انہوں نے پچاس سال کے درد کو دو ٹیسٹوں ہی میں سمیٹ دیا۔ ابھی تو شکر کریں کہ ٹیسٹ صرف دو تھے، زیادہ ہوتے تو جانے مشرقی پاکستان والے ہماری اور ہماری ٹیم کی حالت پر ہنس ہنس کر ہوش کھو بیٹھتے۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پنجاب اچھا چلایا تو پھر فارمولا یہ آزمایا گیا کہ جو پنجاب اچھا چلا سکتا ہے وہ کچھ بھی چلا سکتا ہے۔ بیل گاڑی بھی، چاند گاڑی بھی، ویسپا سکوٹر بھی، موٹر سائیکل رکشہ بھی، وزارت داخلہ بھی اور پی سی بی بھی۔
ان کی وزارت کے جونیئر افسران بھی یقیناً اس خدشے سے دو چار ہوں گے کہ جو بیک وقت پی سی بی اور وزارت داخلہ چلا سکتا ہے وہ کل کو ہماری کرسی پر بھی جھپٹ سکتا ہے۔ ہمارے بال بچوں کے پیٹ پر بھی لات مار سکتا ہے۔
حالیہ چیئرمین پی سی بی ’جن‘ کے برتے پر جو عہدہ چاہتے ہیں وہ اچک لیتے ہیں، ’جن‘ کے سہارے وہ وزیر اعظم کی ایک نہیں سنتے، ’جن‘ کے توسط سے وہ حکومت میں اپنی ایک حکومت بنائے بیٹھے ہیں وہ قابل قدر، نیک نام اور طاقتور لوگ ہیں۔ کسی کی جرات نہیں کہ ان کے بارے میں زبان کھولے۔ کسی کی ہمت نہیں کہ ان کی طرف انگلی اٹھائے۔ کسی میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ ان کو سخت سست سنائے۔ یہ اعجاز حالیہ وزیر داخلہ کے حصے میں آیا کہ انہوں نے نیک نام لوگوں کا بھی نام ڈبو دیا۔ اب دانش مند یو ٹیوبرز بڑے صاحب کا نام نہیں لیتے بلکہ ان پر تنقید کر کے جی ہلکا کر لیتے ہیں۔ اب نو مئی کے بعد چُپ چُپ رہنے والوں کو بھی زبانیں لگ گئی ہیں۔ آزادی اظہار کے سلسلے میں موجودہ چیئرمین پی سی بی کی یہ خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
تحریک انصاف کے متوالوں اور جیالوں کے لیے بھی موجودہ وزیر داخلہ نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوئے۔ دبی دبی زبانیں اچانک شعلے اگلنے لگیں۔ سہمی سہمی سی سسکیاں اچانک چیخیں بننے لگیں۔ ان کو سامنے ہی ہدف نظر آنے لگا۔ اور تماشا یہ ہے کہ اس ہدف کی تلاش میں نہ خان کی شعلہ بیانی کی کوئی ضرورت پڑی نہ کسی جلسے کے انصرام کی حاجت رہی۔
کچھ عرصہ پہلے اسٹیبلشمنٹ پر کچھ کہتے تو ان کے پاؤں، سر، ہاتھ اور پر جلتے تھے مگر انہیں ادراک ہوا کہ چیئرمین پی سی بی کے بہانے اسٹیبلشمنٹ پر غصہ اتارا جا سکتا ہے۔ دیکھتے جائیے گا کہ اب یو ٹیوبرز نئی صف بندی کریں گے، اب کی بورڈ واریرز نئے ٹرینڈ بنائیں گے۔ اب دشنام طرازی کے چشموں کو راہ مل جائے گی۔ جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ گئی ہو۔
اس کا کریڈٹ چیئرمین پی سی بی کو بھی جاتا ہے۔ انہوں نے اشرافیہ کے سب زخم اپنے جسم پر کھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ قرض بھی اتارے جو کسی پر فرض نہیں تھے۔ وہ کار ہائے نمایاں بھی سرانجام دیئے جن کی قطعی ضرورت نہ تھی۔ اب دیکھیں نہ کوئی حکومت کی کارکردگی پر تنقید کر رہا ہے نہ مہنگائی کا ماتم ہو رہا ہے نہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی لڑائی ہو رہی ہے نہ بلوچستان کے مسنگ پرسنز پر آہ و بکا ہورہی ہے ۔ مسائل بھول کر سب کے لبوں پر ایک ہی نام ہے۔ بنگال سے لے کر پنجاب تک ہمارے سب غم بھلانے کا سہرا ایک ہی شخص کو جاتا ہے۔
قوم کو بلاشبہ ان کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انہوں نے بنگلہ دیش کو گھر بلا کر کھلینے کا فیصلہ کیا۔ وہ نیروبی، مالٹا یا قازقستان جیسی ریاستوں سے بھی قوم کو رسوا کروا سکتے تھے مگر یہ انہی کے تدبر کا نتیجہ ہے کہ جس ٹیم کو کوئی ٹیم ہی تصور نہیں کرتا تھا، اس ٹیم سے ملک کی کرکٹ کو اتنا رسوا کروایا کہ اب کوئی کرکٹ دیکھنے کا نام نہیں لے گا۔
کم خرچ بالا نشیں والی مثال پی سی بی پر صادق آتی ہے۔ جتنی بے عزتی ہوئی یہ پہلے اتنی ارزاں نہیں تھی۔ ہمارے کھلاڑی ایسے کھیل رہے تھے جیسے کوئی بھی کھیل سکتا ہے۔ بالرز ہیں تو وکٹ لینے سے قاصر، بیٹسمین ہیں تو رنز ان کی دسترس سے باہر، فیلڈر ہیں تو ایسے جیسے ہاتھوں سے ریت پھسل رہی ہو۔ حیرت اس عبرتناک کارکردگی پر نہیں ہوتی بلکہ اچنبھے کی بات یہ ہے کہ دوسری ٹیم میدان میں اترتی ہے تو اسی موسم میں، اسی پچ پر، ان کے بلے رنز اگلنے لگ جاتے ہیں، ان کی بالنگ سے مخالف ٹیم کی وکٹیں تنکوں کی طرح بکھر جاتی ہیں اور گیند خود دوڑ کر فیلڈر کو تلاش کر لیتی ہے۔
شان مسعود بھی ان کے منظورنظر ہیں، ورلڈ کپ میں اعظم خان پر بھی انہی کا دست شفقت تھا۔ بیٹنگ آرڈر بھی ان کی اجازت کا مرہون منت تھا اور ٹیم سلیکشن میں بھی یہ شامل تھے۔پچ پر کس نے بیٹھنا ہے، ریزرو میں کس نے رہنا ہے یہ سب فیصلے کہیں اور سے طے کیے گئے۔ جیسے ہمارے ہاں عدالتوں کو سربمہر فیصلے مل جاتے ہیں اسی طرح کرکٹ کے فیصلے کیے گئے۔
شان مسعود دنیا کے واحد کپتان ہیں جنہوں نے پانچ ٹیسٹوں میں کپتانی کی اور پانچوں ٹیسٹوں میں شکست سے سرفراز ہوئے۔ بیٹنگ ایورج سے بھی شرمناک رہی۔ قوت فیصلہ بھی مفقود تھی، بالنگ چینج بھی وقت پر نہ کرسکے ، بیٹنگ آرڈر بھی نہ درست کر سکے۔ ٹیم میں اختلافات بھی ختم نہ ہوئے۔ گروپ بندی پہلے سے بڑھ گئی۔ کارکردگی پہلے سے گر گئی لیکن اس کے باوجود شان مسعود میں ایک خوبی ہے کہ وہ انگریزی بہت جم کر بولتے ہیں۔ بدقسمتی سے چیئر مین پی سی بی اور وزیر داخلہ اس خوبی سے بھی محروم ہیں۔