قومی اسمبلی نے سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ترمیم کا بل وزیر قانون کی سفارش پر متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ یہ بل پی ٹی آئی دور میں بھی متفقہ طور پر منظور ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں ججز کی تعداد میں اضافے کا ترمیمی بل مؤخر کردیا
بل جمیعت علمائے اسلام کے رکن نور عالم خان نے پیش کیا۔ پیپلز پارٹی کے رکن نے دعویٰ کیا کہ یہ بل پی ٹی آئی دور میں ایوان سے متفقہ طور پر منظور ہوا تھا تاہم یہ بل آگے نہیں جانے دیا گیا۔ وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ بل میں خاص بات کیا ہے۔
رکن اسمبلی نور عالم خان نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ دوہری شہریت رکھنے والے افراد افسران تنخواہیں اور مراعات تو قومی خزانے سے حاصل کرتے ہیں لیکن کسی دوسرے ملک سے بھی انہوں نے حلف لیا ہوا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوہری شہریت کے بعد ان کو اس عہدے پر نہیں بیٹھنا چاہیے اور اس بل کے تحت اگر کوئی افسر کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کر لے تو اس سے عہدہ واپس لے لینا چاہیے۔
نور عالم خان نے کہا کہ جیسا کہ دوہری شہریت والا شخص نہ رکن اسمبلی ہو سکتا ہے، نہ رکن سینٹ ہو سکتا ہے، نہ وزیراعظم ہو سکتا ہے اور نہ ہی وزیراعظم کا مشیر ہو سکتا ہے تو اسی طرح کسی بھی دوہری شہریت والے شخص کو کسی سرکاری عہدے پر بھی تعینات نہیں ہونا چاہیے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پر مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے اس بل کی مخالفت کی ہدایت کی گئی ہے، قوانین کی مطابق اب کسی بھی عہدے پر فائز ہونے سے قبل واضح کرنا ہوگا کہ آپ دوہری شہریت کے حامل ہیں یا نہیں۔
مزید پڑھیے: جب مخصوص نشستوں پر نظرثانی اپیلیں گرمیوں کی چھٹیوں کی نذر ہوگئیں
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس کے علاوہ یہ بھی طے کر لیا گیا ہے کہ کون سے اہم عہدے ایسے ہیں کہ جن پر دوہری شہریت کا حامل افسر تعینات نہیں ہو سکتا ہے جبکہ کسی وجہ سے دوہری شہریت کے حامل افسر کو تعیناتی سے قبل حکومت سے اجازت لینی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت اب فوج سے بھی دوہری شہریت ختم کر دی گئی ہے اور پارلیمنٹ میں بھی دوہری شہریت نہیں ہے جبکہ کچھ اداروں میں دوہری شہریت کے افسران کی تعیناتی ہوئی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان افسران کے بچے بیرون ملک میں مقیم ہیں، وہاں کی سرکاری نوکری کر رہے ہیں اور ان کی وجہ سے ان والدین کو بھی وہاں کی شہریت حاصل ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے بل کمیٹی کو بھیجنے کی سفارش کی۔
پیپلز پارٹی کے رکن آغا رفیع اللہ نے اس موقع پر کہا کہ یہ بل اس ایوان سے پہلے بھی پاس کروایا گیا تھا پھر سازش کے تحت اس بل کو آگے جانے نہیں دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکی صدر جو بائیڈن کا سپریم کورٹ میں بڑی تبدیلی کا منصوبہ، کیا کچھ تبدیل ہونے جارہا ہے؟
آغا رفیع اللہ نے کہا کہ اس بل کو پی ٹی آئی دور میں پورے ہاؤس نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا اور علی محمد خان نے اس بل پر مجھے سپورٹ بھی کیا تھا اور یہ بل بہت ضروری ہے لیکن اس بل کے لیے یہ سارے ’بابو لوگ‘ منع کریں گے۔