درد کا رشتہ نبھانے والے اہل قلم

جمعرات 5 ستمبر 2024
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اردو کے ممتاز نقاد شمیم حنفی نے زندگی کے آخری زمانے میں میری فرمائش پر چند مضامین سپردِ قلم کیے تھے، ان میں ایک مضمون معروف انڈین ڈراما نگار گریش کرناڈ کے بارے میں تھا۔ اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ گریش کرناڈ ہمارے دور کے سب سے روشن خیال، بے تعصب اور روادار انسانوں میں سے تھے۔

انہوں نے کرناڈ کی شخصی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی شمار کی کہ وہ غیر مقبول موقف اپنانے سے نہیں ڈرتے تھے، اس ضمن میں ایک مثال کا تعلق رابندر ناتھ ٹیگور سے تھا۔

شمیم حنفی کے بقول ’گریش کرناڈ نے ہمیشہ زندگی کا وہ انداز اختیار کیا جسے بہرحال نامقبول ہونا تھا۔ انہوں نے ٹیگور کے بارے میں اپنی یہ رائے کبھی نہیں چھپائی کہ وہ ڈراما نگار دوئم درجے کے تھے‘۔ اس بات سے میرا دھیان انڈیا کے نامور صحافی اور ایڈیٹر ونود مہتا کی کتاب Editor unplugged کی طرف منتقل ہوا جس میں انہوں نے خوشونت سنگھ کی جرات مندی کو سلام پیش کیا ہے، ان کی دلاوری کے بیان میں دو مثالوں میں سے ایک کا تعلق ٹیگور سے ہے۔

ونود مہتا نے لکھا کہ 1995 میں خوشونت سنگھ نے شلونگ میں ٹیگور پر تنقید کی، مشرقی انڈیا میں یہ ایسا ہی عمل ہے جیسے نازی جرمنی میں ہٹلر کو ہدفِ تنقید بنانا تھا۔ خوشونت سنگھ نے تقریر میں یہ کہہ دیا تھا کہ وہ ٹیگور کو عظیم لکھاری نہیں سمجھتے۔ ونود کے خیال میں مقامی طور پر اس نقطہ نظر کا اظہار ممنوع تھا البتہ غیر ملکی اسکالر تواتر سے اس موضوع پر بات کرتے تھے۔

خوشونت کی باتیں اخبارات میں رپورٹ ہونے پر شور مچ گیا۔ ونود مہتا کے مطابق کمیونسٹ، کانگریس اور بنگالی بھدرا لوک جن کی آپس میں نہیں بنتی تھی، انہیں خوشونت کے ٹیگور کے بارے میں خیالات نے یکجا کردیا۔ وہ غصے میں آپے سے باہر ہوگئے اور ریاست میں ’بندھ‘ کی کال دے دی۔ اس تناتنی میں خوشونت کو وہاں سے نکلنا پڑا جس سے پہلے انہیں ایئر پورٹ پر رگیدا گیا، اس سب کے باوجود انہوں نے اپنی رائے سے رجوع نہیں کیا اور اسے اپنے کالموں میں دہرایا۔

خوشونت سنگھ کی بہادری کی دوسری مثال جو Editor unplugged کے مصنف نے دی ہے، وہ خالصتان تحریک کے زمانہ عروج میں جرنیل سنگھ بھنڈرا والا کی مخالفت کرنے کی ہے، جسے سخت سست کہہ کر انہوں نے اس کی ناراضی مول لی تھی۔ اس نے خوشونت سنگھ کو خاندان سمیت ٹھکانے لگانے کی دھمکی دی جس کی وجہ سے انہیں پولیس کی کڑی نگرانی میں رہنا پڑا لیکن وہ جرنیل سنگھ کو آڑے ہاتھوں لینے سے باز نہ آئے۔

ونود مہتا کی دانست میں خوشونت سنگھ نے جس جرات مندی سے اسے چیلنج کیا وہ نہ صرف ایڈیٹروں بلکہ آزادی سے محبت کرنے والے تمام شہریوں کے لیے ایک مثال ہے، وہ اس جرات مندی کو چیزے دیگری قرار دیتے ہیں۔

جرنیل سنگھ پر تنقید اپنی جگہ لیکن 1984 میں اندرا گاندھی نے آپریشن بلیو اسٹار میں گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا تو خوشونت نے اس کی مخالفت کی اور احتجاجاً پدم بھوشن ایوارڈ واپس کردیا۔

ونود مہتا نے ایوارڈ لوٹانے کے فیصلے پر گرفت کی اور کہاکہ ایک انڈین یا پھر ایک سکھ؟ دونوں حیثیتوں میں انتخاب کامعاملہ درپیش ہونے پر خوشونت سنگھ ، سکھ ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ خوشونت سنگھ نے ردعمل میں کہاکہ ہندوؤں کو اپنی قوم پرستی ثابت نہیں کرنی پڑتی، یہ صرف مسلمان، سکھ اور عیسائی ہیں جنہیں اپنی حب الوطنی کا ثبوت فراہم کرنا پڑتا ہے۔ خوشونت سنگھ جو اس وقت ونود مہتا کی زیر ادارت سنڈے آبزرور کے اہم ترین قلم کار تھے، انہوں نے اس جریدے میں لکھنا ترک کردیا۔

ونود مہتا کا کہنا ہے کہ ہمینگوے کے نزدیک دباؤ میں گریس سے کام لینا جرات مندی ہے۔ ان کے خیال میں خوشونت کے ہاں گریس کی تو زیادہ اہمیت نہیں لیکن جہاں تک ان کی جسمانی اور اخلاقی جرات کی بات ہے تو وہ ہمینگوے کی جرات مندی کی محدود تعریف سے بہت آگے کی چیز ہے۔

ونود مہتا کے خیالات کو محض ایک صحافی کا دوسرے صحافی کو خراج تحسین قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب میں خوشونت سنگھ کو ان 6 شخصیات میں شمار کیا ہے جنہیں وہ ’ایڈمائر‘ کرتے ہیں۔ اس کڑے انتخاب میں جگہ پانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈین صحافت میں خوشونت سنگھ کس اونچے سنگھاسن پر تھے۔

ونود مہتا کے 6 رکنی انتخاب میں ارندھتی رائے کا نام بھی شامل تھا جن کے صحافیانہ اور دانشورانہ کمالات شاندار اور یادگار مضامین کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ یہ مضامین آؤٹ لک میں ونود مہتا کی ادارت میں شائع ہوئے جسے وہ اپنے لیے باعثِ مسرت اور اعزاز سمجھتے ہیں۔

ونود مہتا کو فون پر ارندھتی رائے مضمون کی پیشگی اطلاع دیتیں تو وہ اس کی طوالت کے بارے میں پوچھتے۔ مصنفہ کا جواب ہوتا: آٹھ ہزار الفاظ، اس پر ایڈیٹر اپنے چیف سب ایڈیٹر کو آواز لگاتے کہ ارندھتی رائے کے 10 ہزار لفظوں کے لیے تیار ہو جاؤ۔

ارندھتی تکمیلیت پسند ہیں، اس لیے مضمون لکھنے کے بعد اس کی اشاعت سے پہلے کے مراحل میں بھی ان کا بہت عمل دخل ہوتا۔ وہ اپنے مضمون کے ٹائٹل، تعارف، اقتباس اور تصاویر کا انتخاب کرتیں، اس پر مستزاد دفتر میں گھنٹوں بیٹھ کر پروف خوانی کی جاتی۔ اس مشق سے سب ایڈیٹروں کی جان ضیق میں آجاتی تھی، اس لیے ونود مہتا نے ارندھتی رائے کو سب ایڈیٹروں کے لیے ڈراؤنا خواب قرار دیا ہے۔ ایک بات یہ بتائی کہ ان کا مضمون متوقع ہوتا تو ایڈیٹر صاحبان تو اس پر خوش ہوتے لیکن سب ایڈیٹر ہلکی سے آہ بھر کر رہ جاتے۔

ارندھتی رائے کے جون 1998 میں آؤٹ لک میں پہلے مضمون سے لے کر بعد کے تقریباً تمام مضامین ونود مہتا کی ادارت میں شائع ہوئے۔ ان کا پہلا مضمون ’دی اینڈآف امیجی نیشن‘ تھا۔ ان کی یہ تحریر اس وقت سامنے آئی جب انڈیا میں ایٹمی دھماکوں سے پیدا ہونے والی سرخوشی عروج پر تھی، ونود کے نزدیک اس ماحول میں ارندھتی رائے ہوش مندی کی واحد آواز تھیں۔

اردو میں بھی اس مضمون کا چرچا رہا۔ ممتاز مترجم اجمل کمال نے اس کا ترجمہ کیا جو 1998 میں ادبی جریدے ’آج‘ میں ’تخیل کی موت‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔

2021 میں ارندھتی رائے کے منتخب مضامین کا اجمل کمال کے قلم سے ترجمہ، ’تخیل کی موت‘ کے نام سے سامنے آیا۔

کسی مضمون کا حوالہ آئے اور اس سے مشتے نمونہ از خروارے اقتباس پیش نہ کیا جائے یہ کم از کم میری روایت نہیں۔ اس لیے ذرا یہ چند سطریں ملاحظہ کیجیے جس میں ہم پاکستانیوں کے لیے بھی کھلی نشانیاں ہیں:

’ہماری اس سفاک، مجروح دنیا میں بھی حسن موجود ہے، پوشیدہ، شدید اور فراواں۔ وہ حسن جو بلا شرکتِ غیرے ہمارا اپنا ہے اور وہ حسن بھی جسے ہم نے وقار کے ساتھ دوسروں سے حاصل کیا ہے، اسے بڑھایا ہے، نئی اختراعات کرکے اسے سنوارا ہے، اسے اپنایا ہے۔ ہمیں حسن کو تلاش کرنا ہوگا، اس کو پروان چڑھانا ہوگا، اس سے محبت کرنی ہوگی۔ بم بنا کر اس کو صرف تباہ کیا جاسکتا ہے۔ اور اس سے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہم اس بم کو استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔ بم دونوں صورتوں میں ہم کو تباہ کر ڈالے گا۔ بھارت کا ایٹم بم اس حکمران طبقے کی جانب سے حتمی غداری کا فعل ہے جس نے اپنے عوام کو دھوکا دیا ہے۔ ہم اپنے سائنسدانوں کو تعریف کے کتنے ہی ہاروں سے لاد دیں، ان کے سینوں پر کتنے ہی تمغے آویزاں کردیں، حقیقت یہی ہے کہ بم بنانا بہت آسان کام ہے، 40 کروڑ عوام کو تعلیم دینا اس سے کہیں زیادہ دشوار ہے۔۔۔ایٹم بم انسان کے ہاتھوں وجود میں آنے والی سب سے زیادہ جمہوریت دشمن، قوم دشمن، انسان دشمن اور شیطانی چیز ہے‘۔

ایڈیٹر نے اس مضمون میں بالکل معمولی سی ترمیم کرنی چاہی تو مصنفہ نے اس کی اجازت نہیں دی۔

ارندھتی رائے نے لکھا تھا:

who the hell is the prime minister to have his finger on the nuclear button?

ونود مہتا اس میں سے the hell حذف کرنا چاہتے تھے۔

ارندھتی رائے نے ونود مہتا کے تعزیت نامے (obituary ) میں بتایا ہے کہ وہ اس بات سے آگاہ تھیں کہ وہ بارودی سرنگوں سے اٹی کس سرزمین پر قدم رکھ رہی ہیں، اس لیے انہوں نے ایڈیٹر سے کہاکہ کیا ان کی تصویر کور پر شائع کرنے سے گریز کیا جاسکتا ہے؟ اس پر ونود نے بتایا کہ وہ دیکھیں گے کہ کیا ہوسکتا ہے۔ پرچہ آؤٹ ہوا تو کور پر ارندھتی رائے کی تصویر اس فقرے کے ساتھ شائع ہوئی:۔

I secede.All hell broke loose.

ونود مہتا نے لکھا ہے کہ روایتی دانش یہی کہتی ہے کہ 2500 سے زیادہ الفاظ کی تحریر سے قاری کو نیند آجاتی ہے لیکن ارندھتی رائے کی رائے اس کے برعکس تھی۔ 8 سے 10 ہزار الفاظ پر مشتمل مضامین تو ان کے قلم سے نکلتے ہی تھے لیکن جب انہوں نے ماؤ وادیوں کے ساتھ دانتے واڑا میں گزرے شب و روز کااحوال ’واکنگ ود کامریڈز‘ کے عنوان سے رقم کیا تو لفظوں کی تعداد 20 ہزار ہوگئی۔ اب سوال یہ درپیش تھا کہ اتنا طویل مضمون آؤٹ لک میں کیسے سمائے گا؟

ونود مہتا نے کافی سوچ بچار کے بعد مکمل مضمون شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کتاب میں اسے ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنا بہترین فیصلہ قرار دیا ہے۔ مضمون کی جس قدر پذیرائی ہوئی اس کی توقع ایڈیٹر اور لکھاری دونوں کو نہیں تھی۔

’واکنگ ود کامریڈز‘ معروف ادیب اور مترجم آصف فرخی نے ’کامریڈز کے ساتھ قدم بہ قدم‘ کے عنوان سے اردو میں منتقل کیا۔ اس میں مصنفہ کے کامریڈوں کی سنگت میں اقبال بانو کی آواز میں کلام فیض سننے کا ذکر بھی ہے:

جب اہلِ صفا مردودِ حرم

مسند پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اچھالیں جائیں گے

سب تخت گرائیں جائیں گے

ہم دیکھیں گے

اب آتے ہیں ایک اور مشہور مضمون کی طرف جس نے خاصا ہنگامہ بپا کیا۔ انڈین پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں افضل گورو کو پھانسی دینے کی ارندھتی رائے نے بڑی مخالفت کی تھی۔ اس کی بنیاد ان کے خیال میں یہ تھی کہ اس مقدمے کو انہوں نے کئی سال فالو کیا تھا، قانونی دستاویزات کا مطالعہ کیا تھا، اس لیے وہ جانتی تھیں کہ زیادہ تر شہادتیں یا تو بے بنیاد ہیں یا گھڑی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کیا کہ افضل گورو کے خلاف کوئی براہ راست شہادت نہیں ہے اور وہ معاشرے کی اجتماعی دانش کو مطمئن کرنے کے لیے پھانسی کی سزا سنا رہی ہے۔

افضل گورو کی پھانسی سے کچھ دن پہلے ارندھتی نے ونود کو بتایا کہ وہ اس معاملے پر کچھ لکھنا چاہتی ہیں۔ ونود نے پہلی دفعہ انہیں کچھ لکھنے سے منع کیا۔ ان سے کہا ’ارندھتی یہ نہ کرو، ان کا موڈ خراب ہے، وہ ہم پر چڑھ دوڑیں گے، تم کو بھی نقصان پہنچائیں گے‘۔

ارندھتی رائے نے ہار نہیں مانی اور ایڈیٹر سے کہاکہ ہمیں اس پر خاموش نہیں رہنا چاہیے، قصہ کوتاہ، انہوں نے مضمون لکھنے پر ایڈیٹر کو راضی کر لیا۔

افضل گورو کی پھانسی کے فیصلے پر ارندھتی رائے نے مضمون لکھا جس کا عنوان سپریم کورٹ کے فیصلے سے مستعار لیا تھا:

And his Life Should be made Extinct

ان کے مضامین کی وجہ سے آؤٹ لک کو بے بھاؤ کی سننی پڑتی تھیں۔ افضل گورو والے مضمون پر بھی شدید ردعمل ظاہر ہوا۔

ارندھتی رائے نے لکھا کہ کوئی دوسرا میگزین اپنی، اپنے قلمی معاونین اور ایڈیٹر کی بے عزتی اس خوشی سے شائع نہیں کرتا۔ ونود مہتا ان خطوں سے محظوظ ہوتے، اس لطف میں وہ کبھی ارندھتی رائے کو بھی شریک کر لیتے۔ ان کا ایک پسندیدہ خط افضل گورو کی پھانسی کے خلاف مضمون سے متعلق تھا جس میں یہ مطالبہ تھا کہ ’افضل گورو کو بخشو ارندھتی رائے کو پھانسی پر چڑھاؤ‘ یہ خط بھی آؤٹ لک میں شائع ہوا۔

ونود مہتا نے بیمار پڑنے سے کچھ ہی عرصہ پہلے فون پر کہا، ’سنو ارندھتی! میں نے کبھی بھی کسی کام کے لیے تم سے نہیں کہا لیکن اب میں کہہ رہا ہوں، اصل میں تم سے کہہ نہیں رہا، بتا رہا ہوں۔ تم کو میری نئی کتاب Editor Unplugged لانچ کرنی ہوگی۔ میں جانتا ہوں تم اس طرح کی چیزوں میں نہیں پڑتی لیکن یہ تو تم کو کرنا ہی ہوگا‘۔

ارندھتی رائے نے اپنے سابق ایڈیٹر کی بات سن کر قہقہ لگایا اور کہا کام ہوجائے گا۔ چند دن بعد ونود مہتا کا پھر فون آگیا جس میں انہوں شرارتی انداز میں کہاکہ اسٹیج پر ہم دونوں کے ساتھ تیسرا بندہ ارنب گوسوامی ہوگا۔ ارندھتی رائے کے خیال میں ونود نے اپنے اس منصوبے کے بارے میں سوامی کو بھی نہیں بتایا ہوگا۔ ان کے بقول ’گھاگ اور اپنے ہنر میں طاق لومڑ ہمارے ساتھ کھیل رہا تھا‘۔

کتاب کی تقریب رونمائی میں تینوں اسٹیج پر بیٹھے، اس اکٹھ کو ارندھتی رائے نے پُرتفنن لکھا ہے تاہم انہوں نے ونود مہتا کے لیے یہ بھی کردیا، اور وہ بھی خوشی خوشی۔

گریش کرناڈ ہوں، خوشونت سنگھ ہوں، ارندھتی رائے ہوں یا ونود مہتا، ان کی شناخت کے دائرے پھیلے ہوئے ہیں لیکن ان میں دوسروں کا درد محسوس کرنے کا رشتہ مشترک ہے جسے انہوں نے بڑی تخلیقی مہارت اور جرات مندی سے اپنی تحریروں میں ڈھالا۔ یہ ساونت صرف تحریر پر ہی قانع نہ رہے بلکہ تقریر کے ذریعے بھی بے ضمیر دنیا کے سامنے مافی الضمیر بیان کیا۔ ان کے تذکرے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ سب دوسروں کے کام کو سراہنے میں بخل سے کام نہیں لیتے اور معاصرین کی بڑائی کا اعتراف کرتے وقت اپنی ذات کو منہا کرنے کی دولتِ نایاب سے بھی مالا مال ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp