انڈیا سے بغیر ایندھن جہاز اُڑا کر پاکستان لانے والے مسیحی پائلٹ

ہفتہ 7 ستمبر 2024
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سال 1965 میں پاک بھارت جنگ کا معرکہ جاری تھا۔ ایسے میں پاک فضائیہ کے بہادر اور نڈر مسیحی فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چوہدری کی صاحب زادی شدید بخار میں مبتلا تھیں۔ اسی دوران انہیں محاذ جنگ پر پہنچنے کے لیے کال کی گئی تو انہوں نے فوراً ڈیوٹی پر واپس پہنچنے کے لیے تیاری شروع کردی۔ شریک سفر نے بیٹی کی بیماری سے آگاہ کیا تو سیسل چودھری نے کہا کہ وہ اپنی ایک بیٹی کو دیکھیں یاقوم کی 3 کروڑ بیٹیوں کو دیکھیں جو اُنہیں اپنے تحفظ کیلئے پکار رہی ہیں۔ یہ کہتے ہوئے سیسل چودھری فلائنگ کیلئے گھر سے نکل آئے اور پہلے فضائی قافلے کا حصہ بنے۔
یہ جذبہ اور احساس ہی تھا جس نے بھارتی ارمانوں کو خاک میں ملایا۔ جنگ کے پہلے دن فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چوہدری کو اسکوارڈن لیڈرسرفراز رفیقی اور فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن کے ساتھ مل کر 3 بھارتی ہوائی اڈوں کو ملیا میٹ کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ ولولہ جوش و جذبہ عروج پر تھا۔ ہدف پر پہنچے توتاریکی کا راج تھا۔ ایسے میں 10 بھارتی ہنٹرطیاروں اور زمین سے طیارہ شکن گن سے فائر ابلنے لگے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ دشمن کے خوابوں کو چکنا چور کرنے کے لیے پٹرول کی ٹینکیاں گرائی جائیں۔ تجربہ کامیاب رہا اور دشمن کے 3 طیارے تباہ و برباد کردیے گئے۔ بھارتی طیارے کا ایک گولہ سرفراز رفیقی کے طیارے کو لگا جس کی وجہ سے سرفراز رفیقی شہید ہوگئے۔ خواجہ یونس حسن نے ہلواڑہ کا ہوائی اڈہ اڑا ڈالا لیکن ان کا طیارہ آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ خواجہ یونس حسن نے تمام بھارتی طیاروں کو بھی راکھ کا ڈھیربنا دیااور خود بھی شہادت کا رتبہ پایا۔ اس فضائی قافلے سے صرف فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چودھری ہی زندہ سلامت واپس آسکے اور ان کا شاندار کارنامہ ہر ایک کو برسوں تک یاد رہا کہ کیسے انہوں نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بھارتی مکروہ عزائم کو حقیقت کا روپ نہیں بننے دیا۔
سیسل چوہدری نے 1965 کی جنگ میں ہی کئی اہم معرکوں میں حصہ لیا۔ ایک بار بھارتی فضا میں لڑے جانے والے معرکے میں سیسل چوہدری کے جہاز کا ایندھن انتہائی کم رہ گیا۔ سرگودھا ائیر بیس تک واپسی ناممکن تھی۔ جہاز کو محفوظ مقام میں لے جا کر اس سے پیراشوٹ کے ذریعے نکلا جا سکتا تھا مگراُس وقت ایک ایک جہاز پاکستان کے لیے بہت اہم اور قیمتی تصور کیا جارہا تھا۔ سیسل چودھری نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک انتہائی جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ وہ کم ہوتے ایندھن کی مدد سے جہاز کو انتہائی بلندی تک لے گئے اور پھر اسے گلائیڈ کرتے ہوئے سرگودھا اْتار دیا۔ اس سے قبل کسی پاکستانی ہواباز نے جنگی جہاز کو گلائیڈ نہیں کیا تھا۔ اس جنگ میں سیسل چودہری کے نڈر اور بہادری سے بھرے کارناموں کے اعتراف میں انھیں ستارہ جرات دیا گیا۔
سیسل چودھری کا 27 اگست 1941میں مسیحی خاندان میں جنم ہوا۔ لاہور کے سینٹ انتھونی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر ایف سی کالج لاہور سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1958 میں پاکستان فضائیہ سے منسلک ہوگئے۔ سیسل چودھری کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ انہوں نے ناصرف 1965 بلکہ 1971 کی جنگ میں بھی حصہ لیا۔ فضائی معرکوں کے دوران انہوں نے بہادری اور جرات کے وہ کارنامے رقم کیے کہ حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ جرآت اور تمغۂ جرآت کے اعزازات سے نوازا۔
سال 1971 میں سیسل چودھری سرگودھا ایئر بیس پر تعینات تھے، بھارتی حدود میں ایک مشن کے دوران سیسل چودھری کے طیارے میں آگ لگ گئی۔ تب انہوں نے پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگا دی، انہیں فوراً ہسپتال لایا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کی 4 پسلیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ اس درد اور تکلیف کے باوجود سیسل چودھری نے 14 فضائی معرکوں میں حصہ لے کر ایک نئی داستان رقم کی۔ سیسل چودھری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ انہوں نے پاک فضائیہ کے سب سے اعلیٰ فضائی بیڑے کی سربراہی بھی کی۔
سال 1986 میں گروپ کیپٹن سیسل چودھری پاک فضائیہ سے ریٹائر ہوئے تو شعبہ تعلیم سے ناطہ جوڑ لیا اور کئی سال تک سینٹ انتھونی اسکول کے پرنسپل کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ پھر وہ سینٹ میری اکیڈمی راولپنڈی کے پرنسپل بن گئے۔ انہوں نے پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کے بطور ڈائریکٹر بھی کام کیا۔ سیسل چودہری نے انسانی حقوق کے لیے بھی کام کیا۔ وہ  قومی کمیشن برائے انصاف اور امن کے بھی وابستہ رہے اور اقلیتوں کے لیے مخلوط طریقہ انتخابات کی بحالی کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔
سال 1978 میں سیسل چودھری کی برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانے میں بطور ملٹری اتاشی تعیناتی ہوئی۔ ستمبر 1979ء میں سیسل چودھری نے عراق میں اپنی ذمے داری نبھائی۔ انہوں نے عراقی ہوابازوں کو تربیت بھی دی۔ ان کو عراق کا سب سے بڑا غیر فوجی اعزاز بھی دیا گیا۔ 13 اپریل 2012 میں وہ 70 برس کی عمر میں چل بسے۔ سیسل چودھری پھیپھڑوں کے کینسر میں متبلا تھے اور انہوں نے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال لاہور میں آخری سانسیں لیں۔ تدفین جیل روڈ پر واقع قبرستان میں کی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp