لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں آسانی کو

بدھ 5 اپریل 2023
author image

ڈاکٹر ریاض عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ارے میاں جون بھائی (جون ایلیا) نے اسی لیے تو کہا ہے کہ
تم نے تو بات ہی پکڑ لی ہے
ایسا نکلا مری زبان سے کیا

پروفیسر چراغ الدین شمسی نے آتے ہی جلالی لہجے میں شعر سنایا تو ہم نے بصد احترام انھیں بتایا کہ یہ شعر جون ایلیا کا نہیں بلکہ سلیم طاہر کا ہے۔ پھر فوراً ہی شعر سنانے کی وجہ دریافت کی کہ کہیں اس تصحیح پر وہ ناراض ہی نہ ہوجائیں۔

پروفیسر صاحب کے باب میں ہم اکثر اسی شش و پنج میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ موقع محل کی مناسبت سے شعر سنانے کی صلاحیت ان میں بھر بھر کر کوٹی گئی ہے یا کوٹ کوٹ کر بھری گئی ہے۔
اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر یہ بات ہم بخوبی جانتے ہیں کہ زید کا شعر بکر کے نام سے سنانے کے باوجود وہ شعر ہمیشہ وزن میں سناتے ہیں۔
”میاں دیکھو ہمارے سیاست دان بھی تو انسان ہی ہیں نااور بھول چوک انسانوں سے ہو جاتی ہے۔“

”پروفیسر صاحب کس کی بھول کی بات کررہے ہیں؟“ہمارے لیے تو یہ معلومات بھی کسی خزانے سے کم نہیں تھیں کہ سیاست دان بھی انسان ہی ہیں کیوں کہ ہم انھیں خواہ مخواہ ہی ”اشرافیہ“ میں شمار کرتے چلے آرہے تھے۔

ہم نے بے صبری سے ان کی بات کاٹی تو وہ جو ہماری اس دخل در معقولات سے چیں بہ جبیں ہورہے تھے، جھلا کر بولے:
”میاں تم بھی اپنی طرز کے ایک انوکھے ہی اتاولے آدمی ہو، بھئی صبر سے کام لو،بتاتو رہاہوں۔دیکھو میاں سیاست دانوں کو اکثر و بیشتر ذرائع ابلاغ سے، پارلیمان سے اور اخباری نمائندوں سے گفتگو کرنی ہوتی ہے۔“

”جی جی پروفیسر صاحب ہمیں پتا ہے کہ زیادہ تر سیاست دان توگفتار کے شہید ہوتے ہیں۔“ شکر ہے کہ انھوں نے محاورے میں ہماری ترمیم کی گستاخی کو درخوراعتناہی نہیں سمجھا ورنہ ہماری گوشمالی یقینی تھی۔

انھوں نے اپنی بات جاری رکھی:”گفتگو کرتے ہوئے زبان کا پھسلنا عام سی بات ہے۔ اب کیا ہوا جو ہمارے وزیر اعظم نے یہ کہہ دیا کہ’اللہ ہم سب کی آسانیاں دور فرمائے۔‘میاں بندہ جذبات میں، روانی میں کبھی کبھار الٹا سیدھا کہہ جاتا ہے۔“

”جی جذبات کے باب میں تو میاں شہباز شریف ویسے ہی ید طولیٰ رکھتے ہیں۔اس لیے بعض اوقات خطاب کرتے ہوئےان کی دسترس میں جو مائیک آتے ہیں وہ ان کے جذبات کے آگے ٹک ہی نہیں پاتے۔لیکن پروفیسر صاحب یہ بات ماننی پڑے گی کہ ہمارے لوگ میاں شہباز شریف کے جذبات کی انتہائی قدر کرتے ہیں اور انھی جذبات کی وجہ سے ان سے بہت محبت بھی کرتے ہیں۔ان کی بے لوث محبت کا ثبوت یہ ہے کہ آج میاں صاحب کے تن پر کپڑے موجود ہیں تو اس کا باعث یہی عام لوگ ہیں جو ایک آٹے کے تھیلے کے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑے رہتے ہیں،اور کچھ تو اپنی جان سے بھی چلے جاتے ہیں صرف اس لیے کہ انھیں آٹا مل جائے ورنہ آٹا نہ ملنے کی صورت میں میاں صاحب نے اپنے کپڑے بیچ دینے ہیں۔“

”ارے میاں تم بھی کہیں کی بات کہیں لے جاتے ہو۔میں میاں صاحب کی زبان پھسلنے کی بات کررہاتھااور۔۔۔“
ہم نے پروفیسر صاحب کےتیور دیکھتے ہوئے فوراًموضوع پر آنا مناسب سمجھااور گویا ہوئے:”پروفیسر صاحب یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ میاں شہبازشریف نے جب یہ دعائیہ گفتگو کی ہو اس وقت وہ جذبات میں نہ ہوں اور پورے حواس میں انھوں نے یہی دعا مانگی ہو۔“

”میاں کیا اول فول بکے جارہے ہو!کیا مطلب ہے تمھارا؟“پروفیسر صاحب کی برہمی برقرار تھی۔”مطلب یہ پروفیسر صاحب کہ ہمیں آزادی حاصل کیے ہوئے پچھتر سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے اور ہر سیاست دان نے، جب جب وہ حکومت میں تھا،اپنی بھرپور کوشش کی ہے کہ ہماری آسانیاں مشکل ہوں۔“

”میاں سیدھی بات کرو،یہ محاوروں کے ساتھ چھیڑخانی ہمارے ساتھ نہیں چلنے والی!“پروفیسر صاحب نے مرعوب ہوئے بنا ہمیں تقریباًڈانٹتے ہوئے کہا۔
”سیدھی بات یہ کہ عام آدمی کی بنیادی ضروریات کیا ہیں،آپ ہی بتائیں؟“ ہم نے الٹا ان سے سوال پوچھ لیا۔

”روزمرہ ضروریات زندگی مثلاًآٹا،گھی،دالیں اور چینی وغیرہ۔“ ”اور؟“ ”اور۔۔۔اور صحت اور تعلیم کی سہولتیں،اورتوانائی کی بنیادی ضرورتیں۔“پروفیسر صاحب نے ٹھوڑی پر انگشت شہادت اور انگوٹھا رکھتے ہوئے کہا۔”اب آپ ہی بتائیے کہ یہ ساری چیزیں اگر ہماری حکومت فراہم کرے تو یہ آسانیاں ہیں یا مشکلات؟“ ہم نے پوچھا۔

”ظاہر ہے میاں یہ سب آسانیاں ہی تو ہیں۔“”اب یہ بتائیے کہ کیا یہ سب آسانیاں مجھے اور آپ کو میسر ہیں؟“ہم نے فوراًسوال داغا۔”میاں سچ پوچھو تو بالکل بھی نہیں۔“

”یہی تو میں بھی کہہ رہاتھا کہ ہمارے سیاست دانوں نے ہمیں یہ آسانیاں فراہم کرنے کی مخلصانہ کوششیں کی ہی نہیں۔انھوں نے ہرممکن کوشش کی ہے کہ ہماری مشکلات میں اضافہ ہو اورہمیں آسانیوں سے نجات ملے۔یہی وجہ ہے کہ آٹا، گھی، چینی دالیں اور دوائیں وغیرہ عام آدمی کی پہنچ سے آسانیوں کی طرح دور ہیں اور مستقبل قریب میں ان کے نزدیک آنے کا کوئی امکان بھی نظرنہیں آرہا ہے۔“

”میاں تمھاری بات دل کو لگتی ہے۔اس کا مطلب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم نے خلوص دل سے سچی دعا مانگی ہوکہ اے رب کریم،ہماری ہرممکن ریاضت کے باوجود بھی اگر کوئی آسانیاں عام آدمی کو میسر ہوں توانھیں دور فرما دے۔فراغ روہوی نے شاید اسی لیے کہا تھا
یہ نہیں دیکھتے کتنی ہے ریاضت کس کی
لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں آسانی کو“

اس مرتبہ ہم نے دل ہی دل میں اظہر فراغ سے معذرت کی کہ پروفیسر صاحب نے ان کا شعرفراغ روہوی کے کھاتے میں ڈال دیا تھااورخود یہ سوچنے لگے کہ میاں شہباز شریف صاحب کی دعا توگزشتہ برس اپریل میں اسی دن قبول ہوگئی تھی جب انھوں نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت سنبھالی تھی۔

گویا انھوں نے انتہائی آسانی سےعمران خان کی مشکلات کو آسانیوں میں بدل ڈالاتھا۔وہ دن اور آج کا دن مشکلیں ان کے قدم چوم رہی ہیں اورآسانیاں ان سے ،انکے اتحادیوں سےاور عام آدمی سے ”ہنوز دلی دور است“ کے مصداق دورہی نظر آتی ہیں۔

 

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ابلاغ عامہ میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور اس وقت رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ساتھ بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ ہیں۔بچوں کے ادب پر کتابیں لکھنے کے ساتھ اکادمی ادبیات پاکستان میں "ادبیات اطفال" کے معاون مدیر کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ سیاسی و غیر سیاسی سبھی موضوعات پر فکاہیہ تحریریں لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp