آپریشن دوارکا، جس کے بعد انڈیا کو جواب دینے کی ہمت نہ ہوئی

اتوار 8 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

8 ستمبر کووطن عزیز کی بحری سرحدوں کی حفاظت کے لیے پاکستان بحریہ کی دی گئی قربانیوں کے دن کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے وی نیوز نے پاکستانی بحریہ کے ہیرو اور دوسری جنگ عظیم کے بعد آبدوز کی کمان کرتے ہوئے کوئی بحری جہاز تباہ کرنے والے احمد تسنیم کا خصوصی انٹرویو کیا ہے۔ احمد تسنیم 1965 اور 1971 کی جنگ میں بہادری اور شجاعت کی داستان رقم کر چکے ہیں اور ان کی دلیری کے اعتراف میں انہیں ہلال امتیاز ملٹری، ستارہ جرآت (2 مرتبہ)، ستارہ امتیاز سے نوازا جا چکا ہے اور وہ پاکستان نیوی سے وائس ایڈمرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ 1965 کی جنگ میں پی این ایس غازی کے سیکنڈ ان کمانڈ تھے جب کہ اس آبدوز کی کمانڈ کرامت رحمان نیازی کے پاس تھی۔ پی این ایس غازی 1964 میں پاکستان نیوی کو ملی تھی اور یہ اس پورے خطے میں پہلی آبدوز تھی۔ جنگ سے قبل وہ ایک بار دشمن کی انٹیلی جنس کے لیے ان کے علاقے میں جا چکے تھے۔

ممبئی کے پانیوں میں صدر ایوب کی تقریر سنی:

احمد تسنیم کے مطابق جنگ 1965 سے قبل وہ ممبئی کے پانیوں میں انٹیلی جنس کے لیے گئے ہوئے تھے اور 6 ستمبر کو جب صدر ایوب نے جنگ کے آغاز پر اپنی تاریخی تقریر کی تو انہوں نے آبدوز کے عملے سمیت پانی کے اندر ہی ایریل باہر نکال کر تقریر سنی۔

مزید پڑھیں:پاک بحریہ کی زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کی کامیاب فائرنگ

آپریشن دوارکا:

1965 کی جنگ کے آغاز پر پاکستان بحریہ نے آپریشن دوارکا کا منصوبہ بنایا۔ اس علاقےکی اہمیت اس حوالے سے بھی اہم تھی کہ یہاں موجود ریڈار سسٹم فضائی حملوں میں بھارتی فضائیہ کی مدد کرتا تھا۔ 7 اور 8 ستمبر کی درمیانی رات کو پاکستان بحریہ کے جہاز دوارکا کے قریب پہنچے جنہیں اس خطے کی واحد آبدوز پی این ایس غازی کے سبب بھارتی بحریہ پر سبقت حاصل تھی۔ دوارکا کے تاریخی آپریشن میں پاکستان بحریہ نے دوارمیں موجود رن وے، ریڈار سسٹم اور سیمنٹ فیکٹری سمیت بہت سی تعمیرات کو مکمل تباہ کر دیا۔ اس بھرپور حملے نے بھارتی بحریہ کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی جس کے بعد وہ کوئی بھی جواب نہ دے سکے۔

65 کی جنگ پوری قوم نے لڑی:

احمد تسنیم کے بقول وہ دشمن کے پانیوں میں تھے جب 12، 13 ستمبر کو آبدوز میں خرابی پیدا ہو گئی۔ جس کے لیے انہیں ‘غازی’ کو لے کر کراچی واپس آنا پڑا۔ قومی جذبے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ بیچ لگژری ہوٹل کے سامنے نیشنل ٹائر کمپنی والوں سے ہمارے انجینئرز نے خراب پرزے کو ٹھیک بنا کر دینے کے لیے رابطہ کیا۔ جس پر ان کے نمائندے نے کہا کہ 12 گھنٹے کے اندر آپ کو اس سے بہتر پرزہ بنا کر دیں گے اور انہوں نے بنا کر دیا۔ جب پیسوں کی باری آئی تو تسنیم احمد کے مطابق انہوں نے لینے سے انکار کر دیا کہ یہ ممکن ہی نہیں۔

مزید پڑھیں:نئے بحری جہازوں کی شمولیت کی تقریب، پاک بحریہ سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت تیار

دوسری جنگ عظیم کے بعد تباہ ہونے والا پہلا بحری جہاز:

احمد تسنیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ان کی آبدوز نے کوئی بھی پہلا جہاز تباہ کیا تھا۔ اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 1969 میں انہیں پی این ایس ہنگور کا کمانڈر بنایا گیا۔ یہ آبدوز انہوں نے فرانس سے حاصل کی تھی جسے لے کر وہ یکم دسمبر 1970 کو کراچی پہنچے۔ نومبر 1971 میں وہ انٹیلی جنس کے لیے بمبئی جا رہے تھے جب راستے میں انہیں ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی آبدوز ہنگور کا ائیرکنڈیشنگ پمپ خراب ہو گیا تھا اور اسے ٹھیک کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ جہاز کو واپس کراچی لایا جائے۔ لیکن احمد تسنیم نے ایک رسک لینے کا فیصلہ لیا۔

وہ رات کے وقت ہنگور کو پانی کی سطح پر لے آئے اور آبدوز کو ٹیڑھا کرکے خرابی ٹھیک کرنے لگے۔ اس دوران انہوں نے اس کے کنارے ایسی لائٹیں لگائیں کہ دور سے لگے جیسے مچھیروں کی کشتی ہے۔ اس دوران ایک بھارتی جہاز ان کے قریب آیا اور انہیں کچھ فاصلے سے سرچ لائیٹ کے ساتھ دیکھتا رہا۔ احمد تسنیم کے مطابق ان کے عملے نے اجازت مانگی کہ وہ فوراً نیچے چلے جائیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا کیونکہ اس سے بھارتی جہاز کو کنفرم ہو جاتا کہ یہ آبدوز ہی ہے۔ وہ خاموشی سے کھڑے رہےاور بھارتی جہاز انہیں دور سے ہی دیکھ کر چلا گیا۔

مزید پڑھیں:شہدا کی قربانیوں کا مذاق اڑانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں، عطا تارڑ

اس کے بعد جنگ کے آغاز پر وہ بمبئی کے قریب تھے اور انہوں نے بھارتی جہازوں کے کراچی کی جانب جانے کی اطلاع انہوں نے نیول ہیڈکوارٹر کو دی۔ اس پیغام کے بھیجنے سے بھارتی بحریہ کو خبر ہو چکی تھی کہ پاکستانی آبدوز ان کے قریب ہی موجود ہے جس کے لیے انہوں نے اپنے جہاز بالخصوص کرپان اور کھکری کو ہنگور کی تلاش پر لگا دیا۔ احمد تسنیم کے ان کے سرچ پیٹرن کا پتا لگا لیا تھا اور جب یہ جہاز ہنگور کے قریب سے گزرے تو انہوں نے کھکری کو تباہ کر دیا۔ اس تباہی میں سیکڑوں بھارتی فوجی مارے گئے اور یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی بحری جہاز کی آبدوز کے ہاتھوں پہلی تباہی تھی۔ کرپان پر فائر کیا گیا تارپیڈو اسے لگا تو سہی مگر پھٹ نہیں سکا جس کے بعد وہ فرار ہو گیا۔ اس کے بعد بھارتی بحریہ نے ہنگور کو تلاش کرکے تباہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا جس کی فضا سے بھی نگرانی کی جاتی تھی۔

ہنگور کراچی کے بجائے بمبئی کی طرف چل پڑا

احمد تسنیم کے بقول کراچی جانے کے راستوں پر جگہ جگہ بھارتی بحریہ کے جہاز پھیلے ہوئے تھے اور ان کی سرتوڑ کوشش تھی کہ کھکری کا بدلہ لیا جائے۔ ایسے میں انہوں نے ایک نہایت حیران کن فیصلہ کیا اور پی این ایس ہنگور کا رخ بمبئی کی جانب موڑ دیا۔ بھارتی جہاز انہیں کراچی کی جانب بھاگ بھاگ کر ڈھونڈتے رہے اور آخر میں انہیں ناکامی اٹھانا پڑی۔ جس کے بعد پاکستانی بحری ہیروز ہنگور کو محفوظ راستوں سے لے کر کراچی واپس آئے جہاں ان کا شایان شان طریقے سےاستقبال کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp