آزاد کشمیر میں مویشیوں کے لیے بنائے گئے تالاب (کیٹل پونڈز) تیزی سے کم ہورہے ہیں جس کی وجہ سے چشمے یا تو خشک ہوچکے ہیں یا پھر ان میں پانی بہت کم رہ گیا ہے۔
محکمہ جنگلات کے ڈویژنل فاریسٹ آفیسر ( ڈی ایف او) اویس جاوید نے وی نیوز سی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مقامی سطح پر جبڑے کہلائے جانے والے ان کیٹل پونڈز کی تعداد میں 30 سے 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے چشموں کا پانی بھی کم ہو گیا ہے۔
اویس جاوید کا کہنا ہے کہ جس چشمے کا پانی ستمبر میں کم ہوتا تھا اب وہ جون جولائی میں کم ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیر: موسم گرما کے عارضی ٹھکانے کیوں غیرآباد ہو رہے ہیں؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے ہر سال بہکوں (موسم گرما کے عارضی ٹھکانے جہاں مویشیوں کی چراگاہیں بھی ہوتی ہیں) پر واقع جبڑوں کو صاف رکھا جاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اب صفائی نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے لہٰذا اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے محکمہ جنگلات جبڑے تیار کررہا ہے۔
اویس جاوید نے کہا کہ وہ چراہ گاہوں کی دیکھ بال کرتے ہیں اور کیٹل پونڈز بھی تیار کرتے ہیں۔
جبڑوں کے فوائد بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا پانی جانوروں کے پینے اور گھریلو کاموں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ جبڑے بایو ڈائیورسٹی کے لیے بھی بہت اہم ہیں کیوں کہ اگر پانی نہیں ہوگا تو جنگلی حیات کو بھی پانی نہیں ملے گا جس کی وجہ سے وہ نقل مکانی شروع کر دیں گے۔
مزید پڑھیے: آزاد کشمیر کے اکثر خاندان گرمیاں کن جنت نظیر جگہوں پر گزارتے ہیں؟
ڈی ایف او نے کہا کہ جبڑوں کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زمین میں پانی کے ذرائع ری چارج ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر میں جتنے بھی جبڑے موجود ہیں مون سون کی بارشوں میں بھر جاتے ہیں اور وینز کے ذریعے چشموں سے پانی نکلتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب لوگوں نے ان جبڑوں کو صاف کرنا چھوڑ دیا ہے۔
مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے صحافی ابراہیم گل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ جبڑے اس لیے رکھے جاتے تھے کہ جب بارش ہوتی تو اس کا پانی ایک جگہ جمع کر کے اس کو استعمال میں لایا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہاڑوں پر آج بھی جبڑوں کی جگہیں موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: آزاد کشمیر : گرمی کے ستائے سیاحوں نے ٹھنڈے پانی کے قریب ڈیرے لگا لیے
ابراہیم گل کا کہنا تھا کہ یہ جبڑے اس لیے بھی کارآمد ہیں کہ ان کا پانی زمین میں جذب ہوتا ہے جس سے چشموں کا بھی فائدہ ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آبادی بڑھنے سے چشموں کا پانی آلودہ ہو گیا ہے اور وہ خشک بھی ہوتے جا رہے ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔