‘پاکستان میں الیکشن فوراً ہوں’ اور ‘سیکیورٹی مسائل، فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے انتخابات ممکن نہیں’ کی مطالبہ نما بحث سیاسی الجھن اور آئینی بحران بنی تو سپریم کورٹ نے تنازعات بھری طویل سماعتوں کے بعد فیصلہ دیا کہ 14 مئی کو الیکشن منعقد کیے جائیں۔
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی فوری الیکشن کروانے کی درخواست پر سماعت شروع کی تو اس کی بنیاد الیکشن کمیشن کا وہ فیصلہ بنا تھا جس میں انتخابات 30 اپریل کے بجائے 8 اکتوبر کو کرانے کا کہا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن کا اپنے فیصلے میں کہنا تھا کہ وزارتِ خزانہ نے انتخابات کے لیے 20 ارب روپے دینے اور وزارتِ دفاع نے سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے نفری دینے سے معذرت کی ہے۔ پولیس نے بھی افرادی قوت دستیاب نہ ہونے کا بتایا تھا۔
سپریم کورٹ نے جہاں پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دی وہیں الیکشن کمیشن سے کہا کہ وہ حکومت کی جانب سے 20 ارب روپے دینے سے متعلق رپورٹ 11 اپریل تک جمع کرائے۔
آئینی و قانونی ماہرین نے عدالتی فیصلے کے بعد مؤقف اپنایا کہ 90 دن میں انتخابات کرانا آئین کا تقاضہ اور جمہوری مستقبل کے لیے لازم ہے۔
ملک کی خراب معاشی و سلامتی صورتحال کو پریشانی کا باعث قرار دینے والے حکام اور انتخابی کمیشن نے الیکشن کو آگے بڑھانے پر اصرار جاری رکھا تھا۔
اسی دوران سیاسی تنازع اور آئینی بحران بڑھتا دیکھ کر ایک سیگمنٹ نے رائے دی کہ الگ الگ الیکشن کرانا مس ایڈونچر ہوگا۔ بہتر ہے حکومت کچھ پیچھے آئے اور پی ٹی آئی فوری انتخابات کے مطالبہ کو آگر بڑھائے تاکہ انتخابات ایک ہی وقت میں ہوں۔
اس تناظر میں مصنوعی ذہانت پر مبنی پروگرام چیٹ جی پی ٹی سے نمائندہ وی نیوز نے سوال کیا کہ ایسی صورتحال ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب میں چیٹ جی پی ٹی کا کہنا تھا کہ “تمام فریقین کے لیے بہتر ہے کہ وہ گفت وشنید کریں اور کسی حل تک پہنچیں۔”
بحران کو حل کرنے کے لیے دیے گئے آپشنز میں چیٹ جی پی ٹی نے بتایا کہ ‘قانون کی بالادستی اور جمہوری قدروں کی بقا’ کے لیے یہی راستہ ہے۔
ممکنہ حل کے آپشنز بتاتے ہوئے کہا گیا کہ ‘انتخابات کے انعقاد کے لیے وسائل تلاش کیے جائیں تاکہ پُرامن ماحول میں انتخابات ہوسکیں۔ سیکیورٹی اور لاجیسٹیکل مسائل کے حل کے لیے متبادل آپشن زیرِ غور لائے جائیں’۔
چیٹ جی پی ٹی کے 4 نکاتی حل میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ ‘آگے بڑھنے کا بہتر راستہ تلاش کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے شفاف مذاکرات کیے جائیں تاکہ کسی حل تک پہنچا جا سکے’۔
چیٹ جی ہی ٹی نے چوتھے نکتے میں ‘عالمی اداروں اور دیگر ملکوں سے معاونت حاصل کرنے’ کی تجویز دی۔
پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کے اعلان کے بعد پنجاب میں اپنی اتحادی اور خیبرپختونخوا میں اپنی جماعت کی حکومت اس وقت ختم کر دی تھے جب اسمبلیاں تحلیل کے گئی تھیں۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان کا مؤقف تھا کہ 2 صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے سے مرکز میں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت پر دباؤ بڑھے گا اور وہ الیکشن جلد کرانے پر مجبور ہوں گے۔
دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی مخلوط حکومت کا مؤقف تھا کہ گزشتہ عام انتخابات کو5 برس مکمل ہونے کے بعد وقت پر الیکشن ہوں گے اس سے قبل کسی کے مطالبہ پر ایسا نہیں کیا جائے گا۔