’زندگی پہلے کبھی اتنی مشکل نہ تھی۔ اس قدر مہنگائی ہے کہ اب تو ایک وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔خاوند محنت مزدوری کرتا ہے۔حالات یہ ہیں کہ اسے کبھی کام ملتا ہے اور کبھی نہیں ملتا۔ سارا دن لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہوں اور مشکل سے مہینے کے پندرہ ہزار بنتے ہیں۔ان میں گھر کا کرایہ پورا کروں، بچوں کی فیسیں دوں یا راشن کا بندوبست کروں؟‘
ایسا کہنا ہے شازیہ بی بی کا جو لوگوں کے گھروں میں کام کر کے زندگی کا پہیہ چلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پاکستان کو اس وقت پچھلے پچاس سال میں مہنگائی کی بلند ترین شرح کا سامنا ہے۔ پچھلے سال مارچ کے مقابلے میں اس سال کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں شہروں میں 47.1 فیصد جب کہ دیہاتوں میں 50.2 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اس قدر مہنگائی کے عوامل کیا ہیں؟
سوال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں اتنی مہنگائی کیوں دیکھی جا رہی ہے۔ ایک جانب معاشی تجزیہ کار پاکستان میں اس مہنگائی کی وجہ آئی ایم ایف معاہدے سمیت بہت سے عوامل کو قرار دے رہے ہیں، تو دوسری طرف حکومتی اتحاد پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اور پی ٹی آئی اس ناقابل برداشت مہنگائی کے لیے ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرا رہی ہیں۔
پاکستان میں مہنگائی کے اسباب کے حوالے سے ماہر معیشت ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں مہنگائی بھی امپورٹڈ ہے۔ روس اور یوکرائن کی جنگ کے بعد پوری دنیا میں مہنگائی کی ایک لہر دیکھنے میں آئی اور ظاہر ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر چیزیں امپورٹ ہوتی ہیں لہٰذا اس مہنگائی کا اثر پاکستان پر بھی آنا ہی تھا۔ دوسرا ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا اتنا زیادہ گرنا بھی اس مہنگائی کی وجہ بنا‘۔
سینیئر صحافی اور معاشی تجزیہ کار شہباز رانا، ڈاکٹر اقدس کی اس بات سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا گرنا پاکستان میں مہنگائی کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے، لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس مہنگائی میں اندرونی عوامل کا بھی دخل ہے۔ شہباز رانا کے مطابق ’ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر تقریباً 56 فیصد گری ہے اور ظاہر بات ہے یہ مہنگائی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بنا ہے، اس کے علاوہ پچھلے سال کے سیلاب کے بعد بھی حکومت چیزوں کو بہتر نہیں کر سکی۔ اس سیلاب کی وجہ سے بہت سی غذائی ضروریات کی چیزوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی لیکن حکومت ڈالرز کی کمی کی وجہ سے ان چیزوں کو امپورٹ کرنے میں ناکام رہی‘۔
شہباز رانا کے مطابق ’پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام کی وجہ سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا اور ساتھ ہی نئے ٹیکس بھی لگانے پڑے ہیں، ان تمام عوامل کی وجہ سے ہی مہنگائی پچھلے پچاس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہے‘۔
مہنگائی میں کمی کب آئے گی؟
اس وقت شازیہ بی بی سمیت کروڑوں پاکستانیوں کے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ مہنگائی میں کمی کب ہو گی کہ وہ اپنے دسترخوان پر دو وقت کی روٹی پوری کر سکیں۔ شہباز رانا کے مطابق ’مستقبل قریب میں تو مہنگائی میں کمی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ حکومت ابھی تک ایسے اقدامات کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی جس سے وہ مہنگائی میں کوئی کمی کر پائے۔ حکومت اس سلسلے میں فیول سبسڈی کا آئیڈیا لیکر آئی تھی لیکن وہ بھی قابلِ عمل نظر نہیں آتا، دوسرا آئی ایم ایف بھی اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس لیے ابھی تک تو حکومت مہنگائی میں کمی لانے کی کوششوں میں ناکام نظر آ رہی ہے‘۔
’مہنگائی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد نیچے کا آنا شروع ہو جائے گی‘
دوسری طرف ڈاکٹر اقدس کے خیال میں ’دنیا میں اب مہنگائی میں کمی ہونا شروع ہو گئی ہے ۔ امریکا اور یو کے میں مہنگائی اپنی بلند ترین سطح کو چھونے کے بعد نیچے آنا شروع ہو گئی ہے، تاہم وہاں بھی بہت سے تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ اسے مکمل واپس آنے میں دوسال لگ سکتے ہیں‘۔
پاکستان میں مہنگائی سے متعلق ڈاکٹر اقدس کا کہنا ہے کہ ’ میرے خیال میں اس مہینے مہنگائی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد نیچے آنا شروع ہو جائے گی، تاہم میرا یہ تجزیہ غلط بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اوپیک ممالک نے اپنی تیل کی پیداوار میں کمی کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے ایسے میں ظاہری بات ہے کہ اس کا اثر پاکستان پر بھی مزید مہنگائی کی صورت میں پڑے گا اور تیل کی قیمتوں پر بھی پڑے گا‘۔
کیا مہنگائی کنٹرول نہ کر پانا حکومت کی ناکامی ہے؟
اپوزیشن اور عوام کی زیادہ تر تعداد اس بڑھتی مہنگائی کے لیے پی ڈی ایم کی حکومت کو قصور وار ٹھہراتے ہیں، لیکن ڈاکٹر اقدس افضل ایسا نہیں سمجھتے۔اس حوالے سے ان کا کہنا ہے ’مہنگائی کنٹرول کرنا کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں ہوتی جب کہ پاکستان میں تو مہنگائی ویسے ہی امپورٹڈ ہے۔ مارکیٹ چیزوں کی قیمتوں کا تعین ڈیمانڈ اور سپلائی کے میکنزم کے ساتھ خود کرتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اس میں کوئی بھی حکومت بہت کچھ کر سکتی تھی‘۔
معاشی تجزیہ کار شہباز رانا، ڈاکٹر اقدس کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ شہباز رانا کے مطابق ’حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ہر محاذ پر ناکام نظر آ رہی ہے۔ صوبے قیمتوں کو مانیٹر کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ذخیرہ اندوزی بھی جاری ہے۔ جس کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے‘۔
’آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے بہتری کی توقع؟‘
پاکستان اس وقت کوشش کر رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بحال ہو جائے اور اسے آئی ایم ایف کی رُکی ہوئی 1.2 بلین ڈالرز کی قسط مل جائے۔ پاکستان امید کر رہا ہے کہ اس معاہدے کی بحالی کے ساتھ ہی اسے دوست ممالک سے بھی سپورٹ حاصل ہو جائے گی تو پاکستان ڈیفالٹ کے ممکنہ خطرے سے نکل جائے گا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی بحالی کے بعد مہنگائی کی کیا صورتحال ہو گی؟
شہباز رانا یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کی حالیہ لہر میں بڑا حصہ آئی ایم ایف معاہدے کا بھی ہے۔اُن کے مطابق ’پاکستان نے آئی ایم ایف کے معاہدے کی بحالی کے لیے ہی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے اور نئے ٹیکس لگائے ہیں۔اگر ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہتے ہیں اور حکومت جون کے بعد ایک اور آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس سے شارٹ ٹرم میں تو مہنگائی میں مزید اضافہ ہی ہو گا‘۔
ماہر معیشت ڈاکٹر اقدس افضل کا اس معاملے میں نقطہ نظر مختلف ہے وہ سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی بحالی سے چیزیں مثبت سمت میں جانا شروع کردیں گی۔ ان کے مطابق ’آئی ایم ایف سے معاہدے کی بحالی اور اس کے نتیجے میں دوست ممالک سے آنے والی سپورٹ سے معیشت میں استحکام آئے گا۔ اس معاہدے کی بحالی سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملے گا جس سے مہنگائی میں نمایاں کمی ہو گی‘۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ’اس وقت ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی غیر یقینی صورتحال اور سٹہ بازی کی وجہ سے ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی کے بعد ہو سکتا ہے کہ ڈالر 250 روپے یا اس سے بھی کم پر آ جائے۔ جس سے مہنگائی میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملے گی‘۔
شازیہ بی بی کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حکومت ناکام ہوگئی ہے یا مہنگائی باہر سے آرہی ہے۔اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا ہے اور اسے اس کی فکر کھائے جا رہی ہے۔