انسداد دہشتگردی عدالت نے پاکستان میں نئے قانون پرامن جلسہ، جلوس اور امن عامہ بل 2024 میں وضع کردہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتارقائدین میں سے پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کو رہا جبکہ شعیب شاہین، شیر افضل مروت اور عامر ڈوگر سمیت 7 قائدین کا جسمانی ریمانڈ منظور جب کہ شعیب شاہین کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔
منگل کو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے جاری کردہ حکم کے بعد پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کو سنگجانی تھانے میں درج مقدمے سے بری کر دیا گیا ہے اور انہیں بخیر و عافیت رہا کر کے گھر بھیج دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان رہا، بخیر و عافیت گھر روانہ
پولیس حراست سے رہائی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہرخان نے پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں پولیس کی کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ چہرے ڈھانپے ہوئے افراد نے پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا اور پارٹی کے کم از کم 10 ارکان کو گرفتار کرلیا۔
پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا، 9 ستمبر پاکستان کے لیے سیاہ دن ہے، بیرسٹر گوہر خان
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے 9 ستمبر کو پاکستان کے لیے سیاہ دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بار گرفتاریوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر لائی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ گرفتاریاں پارلیمنٹ پر حملہ ہے، انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے رہنماؤں نے ملک، عوام اور جمہوریت کی خاطر درپیش تمام مشکلات کو معاف کر دیا، ہم پارلیمنٹ میں رہے تاکہ ہم اپنا کردار ادا کر سکیں۔ انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا جلسہ کو اس کی مقررہ مدت سے زیادہ طول دینا جرم ہے۔
پیر کو اسلام آباد پولیس نے کئی مقدمات جن میں چونگی نمبر 26 میں پولیس پر مبینہ حملہ بھی شامل ہے، کے الزام میں پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
گرفتار ہونے والے پارٹی رہنماؤں میں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، شیر افضل مروت، زین قریشی، شیخ وقاص اکرم، نسیم الرحمان اور زبیر خان شامل تھے۔
پی ٹی آئی قائدین پر قانون شکنی کا الزام
پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے متعدد رہنماؤں پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے ملک میں پاس ہونے والے نئے ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور پارٹی رہنماؤں نے جلسہ کے لیے طے کردہ ایس او پیز پر عملدرآمد بھی نہیں کیا، جلسہ مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہا، اس پر پی ٹی آئی قیادت قانون شکنی کی مرتکب ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:علی امین گنڈاپور کو تحویل میں لے لیا گیا، بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت اسلام آباد سے گرفتار
پی ٹی آئی قائدین کے خلاف درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ جب پولیس افسران نے پی ٹی آئی کارکنوں کو اسلام آباد ریلی کے روٹ کی خلاف ورزی کرنے سے روکنے کی کوشش کی تو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس پر لاٹھیوں سے حملہ کیا اور ان پر پتھراؤ کیا۔
دریں اثنا انسداد دہشتگردی کی عدالت نے پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما شعیب شاہین کو چونگی نمبر 26 میں پولیس پر مبینہ حملے سے متعلق کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
شعیب شاہین8 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل
انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین کی سربراہی میں سماعت کے دوران پراسیکیوٹر راجہ نوید نے شعیب شاہین کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی اور دعویٰ کیا کہ پولیس کو ملزمان کے پاس سے ‘پولیس کٹس’ برآمد کرنا ہوں گی۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کارکنوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آلات اور وردی کا استعمال کرتے ہوئے پولیس پر حملہ کیا‘۔
دریں اثنا جج ذوالقرنین نے پی ٹی آئی کو دیے گئے عوامی اجتماع کا ٹائم فریم بھی طلب کرلیا۔ جس پر نوید نے جواب دیا کہ انہیں شام 4 بجے سے شام 7 بجے کے درمیان جلسہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
’پبلک آرڈر‘ کے بارے میں ایک نیا قانون نافذ کیا گیا
پراسیکیوٹر نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ’پبلک آرڈر‘ کے بارے میں ایک نیا قانون نافذ کیا گیا ہے – وکیل کے مطابق فریقین کی طرف سے اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی قیادت پر کارکنوں اور حامیوں کو اکسانے کا بھی الزام عائد کیا۔
دوسری جانب وکیل دفاع ریاض علی نے ان دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل اس موقع پر موجود نہیں تھے۔
انہوں نے کمرہ عدالت میں شعیب شاہین کی گرفتاری کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی چلائیں، جس میں دکھایا گیا کہ کس طرح ایک وکیل کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ شعیب شاہین کو ان کے چیمبر سے گرفتار کیا گیا، جہاں قانون کے مطابق انہیں تحفظ حاصل ہے۔
پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں پی ٹی آئی رہنما کے کردار سے متعلق جج ذوالقرنین کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وکیل دفاع نے کہا کہ ان پر پارٹی کارکنوں کو اکسانے اور ہدایت دینے کا الزام ہے۔
دلائل سننے کے بعد انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج نے جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
‘اے ٹی سی کے فیصلے تک انتظار کریں‘، ہائیکورٹ
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی پی ٹی آئی رہنما کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، جہاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی جانب سے طلبی کا نوٹس جاری کیے جانے پر آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی رہنما کہاں ہیں جس پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ وہ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ہیں۔ پولیس نے وکیلوں کو شعیب شاہین سے ملنے کی اجازت کیوں نہیں دی؟
سماعت کے دوران درخواست گزار اور شعیب شاہین کے بھائی ایڈووکیٹ عمیر بلوچ نے بھی پولیس حکام کی جانب سے بدسلوکی کی شکایت کی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا پولیس نے باضابطہ طور پر ایک وکیل اور پی ٹی آئی قیادت کو گرفتار کر لیا ہے؟ جج نے پی ٹی آئی رہنما کی گرفتاری سے متعلق دستاویزات طلب کیں تو اس پر وکیل دفاع نے کہا کہ شعیب شاہین کو کارکنوں کو اکسانے کی آواز کس نے سنی ہے۔
دلائل کے بعد عامر فاروق نے کہا کہ اس وقت مقدمہ اے ٹی سی میں زیر سماعت ہے۔ ’دیکھتے ہیں کو ’اے ٹی سی‘ سے پولیس کو ان قائدین کے جسمانی یا عدالتی ریمانڈ میں سے کیا ملتا ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی درخواست پر انسداد دہشتگردی عدالت کا فیصلہ آنے تک انتظار کریں گے۔