چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پرسنل سیکریٹری نے مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق چیف جسٹس آف پاکستان سے منسوب بیان اور خبروں کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آف دی ریکارڈ گفتگو کی غیر ضروری طور پرتشہیر کی گئی، واقعات غلط طریقے سے نشر اور شائع ہوئے اور غیر ضروری سنسنی خیزی اور غیر ضروری اہمیت دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:وی نیوز کا سوال: چیف جسٹس کا ایکسٹینشن لینے سے صاف انکار
منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان کے پرسنل سیکریٹری ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں وضاحت کی گئی ہے کہ گزشتہ روز (پیر) عدالتی سال کا آغاز تھا اور اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کو خطاب کرنے اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
پریس ریلیز میں وضاحت کی گئی کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے آخر میں خطاب کیا، سابق مقررین کی جانب سے اٹھائے گئے متعدد نکات پر بات کی، اپنے اور مختلف کمیٹیوں اور دیگر اداروں کے اراکین کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کیا اور بہتری دکھانے کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔
یہ کہ انصاف کی فراہمی کے نظام میں بہتری کے لیے کیا کیا گیا ؟ اور کیا جاتا رہا ؟ اور کس طرح شفافیت اور احتساب کا آغاز کیا گیا؟۔ کارروائی یوٹیوب لنک پر بھی نشر کی گئی۔
مزید پڑھیں:حکومت کا اصل مقصد چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع ہے، بیرسٹر علی ظفر
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ کارروائی کے اختتام پر شرکا کو چائے پر مدعو کیا گیا جس دوران کچھ صحافیوں نے چیف جسٹس کو گھیر لیا، ان سے بات کی اور ان سے سوالات پوچھے۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ وہ ان سے آف دی ریکارڈ بات کر رہے ہیں، لیکن چونکہ بات چیت کی غلط تشریح کی گئی ہے اور اسے وسیع پیمانے پر پھیلایا گیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ جو کچھ ہوا اسے درست طریقے سے پیش کیا جائے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس سے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں پوچھا گیا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ کئی ماہ قبل وزیر قانون ان کے چیمبر میں ان کے پاس آئے تھے اور کہا تھا کہ حکومت چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی مدتِ ملازمت کو 3 سال کرنے پر غور کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صاحبزادہ حامد رضا کا چیف جسٹس کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا اعلان، مگر کیوں؟
پریس ریلیز کے مطابق چیف جسٹس نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے وزیر قانون سے کہا ہے کہ اگر یہ تجویز انفرادی طور پر مخصوص ہے اور اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے، اس موقع پر سینیئر جج منصور علی شاہ اور اٹارنی جنرل بھی موجود تھے۔
سپریم کورٹ کی پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ وزیر قانون کی جانب سے ججز کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے کردار کا بھی ذکر کیا گیا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ججز کی پارلیمانی کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن کو نیشنل باڈی میں شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ یہ پارلیمنٹ کا استحقاق ہے تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت مخالف لوگوں کو اس سے باہر نہیں رکھا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں:وزیر قانون نے چیف جسٹس کی مدت ملازمت بڑھانے کا اشارہ دیا، اسد قیصر کا دعویٰ
اس کے بعد سے وزیر قانون نے نجی طور پر چیف جسٹس سے ملاقات نہیں کی اور نہ ہی چیف جسٹس سے اس طرح کے کسی معاملے پر کوئی بات چیت کی گئی ہے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ رانا ثنا اللہ کی کسی بات سے منسوب ایک سوال بھی تھاجس پر چیف جسٹس نے جواب دیا تھا کہ وہ مذکورہ صاحب! سے نہیں ملے اور نہ ہی جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا کہا ہے لہٰذا اگر کوئی سوال ہے تو ان سے براہ راست پوچھا جائے۔
پریس ریلیز میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قیمتوں میں اضافے کی تجویز پر چیف جسٹس سے سوالات بھی کیے گئے۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس سے پوچھا گیا کہ جب سے مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ججوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس پر جسٹس نے جواب دیا کہ بہتر ہے کہ پہلے خالی آسامیوں کو پر کیا جائے۔
پریس ریلیز میں کی گئی وضاحت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افسوس ناک ہے کہ آف دی ریکارڈ گفتگو کی غیر ضروری طور پرتشہیر کی گئی، واقعات غلط طریقے سے نشر اور شائع ہوئے اور غیر ضروری سنسنی خیزی پیدا کی گئی اور اس پر غیر ضروری توجہ اور اہمیت دی گئی۔