9 ستمبر کو نئے عدالتی سال کی افتتاحی تقریب کے موقع پر چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے سوال پوچھا گیا کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی رانا ثناء اللہ خان کہہ رہے ہیں کہ اگر تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے تو آپ بھی اس کو قبول کریں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے ساتھ ایک ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان سے کہا گیا تھا کہ تمام چیف جسٹس صاحبان کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے گی اور انہوں نے کہا کہ باقیوں کے لیے کر دیں وہ قبول نہیں کریں گے۔
گزشتہ روز جاری ہونے والی پریس ریلیز میں چیف جسٹس نے اس ملاقات اور اس حکومتی پیشکش کو تو کنفرم کیا ہے لیکن مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق ایک فقرہ جو انہوں نے پہلے بولا تھا کہ ’باقیوں کی کر دیں میں قبول نہیں کروں گا‘ کی وضاحت انہوں نے اس طرح کی کہ اس سے ان کا مقصد تھا کہ اگر یہ پیشکش صرف ان کی ذات کے لیے ہوگی تو وہ قبول نہیں کریں گے۔
نئی وضاحت نیا ابہام
اس وضاحت نے ایک بار پھر اس ابہام کو جنم دیا ہے کہ آیا چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے اب بھی کوئی کوشش کی جائے گی؟
سینیئر قانون دان کہتے ہیں کہ ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے جب پارلیمنٹ 2 تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم لے کر آئے لیکن اس وقت حکومتی اتحاد کے پاس مطلوبہ تعداد نہیں ہے۔
پریس ریلیز ظاہر کرتی ہے چیف جسٹس توسیع لینے پر تیار ہیں، بیرسٹر علی ظفر
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور سینیئر قانون دان بیرسٹر علی ظفر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق بات کافی عرصے سے چل رہی تھی لیکن حکومت ایک طرف تو ایوان میں مطلوبہ تعداد اور دوسرا چیف جسٹس کو اس پر رضامند کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ کل جو پریس ریلیز جاری کی گئی اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اگر تمام چیف جسٹس صاحبان کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاتی ہے تو چیف جسٹس بھی اس کے لیے تیار ہوں گے۔
مزید پڑھیے: وی نیوز کا سوال: چیف جسٹس کا ایکسٹینشن لینے سے صاف انکار
بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ چیف جسٹس کا پہلا بیان جس میں انہوں نے کہا کہ ’باقیوں کے لیے کر دیں، میں قبول نہیں کروں گا‘ اور موجودہ وضاحت کہ ’اگر تمام چیف جسٹسز کو توسیع ملے گی‘ میں انہیں تضاد نظر آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عام حالات میں کچھ بیوروکریٹس اور دیگر افسران کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاتی ہے وہ ایک الگ بات ہے لیکن اس وقت جو ماحول چل رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ توسیع اپنی مرضی کے فیصلوں کے لیے دی جا رہی ہے تو یہ تاثر ٹھیک نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کی ٹائمنگ کافی خراب نظر آتی ہے تاہم اگر آئینی ترمیم آتی ہے تو اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق ترمیم قطعاً نہیں آنی چاہیے، امان اللہ کنرانی
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ایڈووکیٹ امان اللہ کنرانی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کے عہدے کی معیاد 3 سال مقرر کر نے کے لیے بات چیت چل رہی ہے۔
مزید پڑھیں: وزیر قانون نے چیف جسٹس کی مدت ملازمت بڑھانے کا اشارہ دیا، اسد قیصر کا دعویٰ
انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے صوبائی ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مدت ملازمت بڑھ جائے گی اور اس طرح سے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی مدت ملازمت بھی بڑھ جائے گی لیکن اس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس کے لیے 2 تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔
ایڈوکیٹ امان اللہ کنرانی نے کہا کہ اس وقت ان کے علم کے مطابق حکومت دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے کر رہی ہے اور ممکن ہے کہ وہ چھوٹی سیاسی جماعتوں سے رابطے کے بعد اس ترمیم کے لیے اراکین اسمبلی کی مطلوبہ تعداد جمع کر پائے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کے خیال سے ایسی ترمیم قطعی طور پر نہیں آنی چاہیے۔