یہ کرسی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کسی شخص کو مل جائے تو پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ انسان مقام آدمیت بھول جاتا ہے اور اگر سیاستدانوں کو عہدہ یا وزارت مل جائے تو انکی گرم جوشی سردمہری میں بدل جاتی ہے۔ شاید دنیا بھر کے سیاستدانوں کا یہی شیوہ ہے لیکن پاکستانی سیاستدان اور ان میں سے بھی ن لیگی سیاستدان تو اس فن میں اتنی مہارت حاصل کرچکے ہیں باقی جماعتوں کے سیاستدانوں اور اراکین پارلیمنٹ کو ان سے ٹیوشن لینی چاہیے کہ عہدہ ملنے پر گردن میں سریا کیسے فٹ کرنا ہے اور آنکھیں کیسے پھیرنی ہیں۔
صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سیاستدان میڈیا پر نظر نہ آئیں انکے بیانات ٹیلی ویژن اسکرینوں پر نہ چلیں یا اخباروں میں نہ چھپیں تو انکو پارٹی میں پذیرائی ملنا مشکل ہے۔ ایسے بے شمار بیک بینچر سیاستدان ہوتے ہیں جو پارلیمنٹ میں صرف حاضری لگوانے آتے ہیں۔ اسی لیے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ لیکن جو تیز ہوتے ہیں اور جن میں کوئی پوٹینشل ہوتا ہے وہ میڈیا کو ہی زینہ بنا کر اپنے سیاسی کیرئیر میں اوپر جاتے ہیں۔ اسی طرح میڈیا کو بھی ان سے یہی لالچ ہوتا ہے کہ ان سیاستدانوں سے کوئی نہ کوئی اندر کی خبر مل جاتی ہے اور اس طرح دونوں کا کام چلتا رہتا ہے۔
کامیاب سیاستدان اور چالاک سیاستدان میں بس تھوڑا سا ہی فرق ہوتا ہے۔ کامیاب سیاستدان ہر دور میں چاہے اسکے پاس کوئی عہدہ ہو یہ نہ ہو وہ میڈیا کے ساتھ بنا کر رکھتا ہے جبکہ چالاک سیاستدان مطلب کے وقت میڈیا کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے اور جیسے ہی مطلب پورا ہو فورا آنکھیں پھیر لیتا ہے۔ ن لیگ میں بھی کامیاب سیاستدان بہت کم اور چالاک سیاستدانوں کی بہتات ہے۔
یہ چالاک سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو دن رات، ہر وقت میڈیا کو ان تک نہ صرف رسائی ہوتی ہے بلکہ یہ خود ہی میڈیا کے نمائندوں سے رابطے کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی یہ اقتدار میں آتے ہیں ایسے محسوس ہوتا ہے ان سے زیادہ کوئی مغرور انسان شاید روئے زمین پر کوئی نہیں ہوگا۔ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انکو اقتدار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ملا ہے اور کبھی کرسی سے اتریں گے ہی نہیں۔
دیگر سیاسی جماعتوں کے شاید چند ایک سیاستدان ہونگے جنکا رویہ وزارت یا عہدے ملنے کے بعد تبدیل ہوتا ہو لیکن ن لیگ میں چاہے سینیئر سیاستدان ہوں یا نئے آنے والے سب ایک سے بڑھ کر ایک نئے سیاستدانوں میں چاہے وفاقی وزیراطلاعات عطا تارڑ ہوں یا سابق وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ہوں،وزیر دفاع خواجہ آصف ہوں یا وزیر خارجہ اسحاق ڈار ان سب کا رویہ میڈیا کے ساتھ اپوزیشن اور حکومت کے ادوار میں یکسر تبدیل ہوجاتا ہے۔ شاید اپنے کسی مخصوص اینکرز کو تو دستیاب ہوتے ہیں لیکن عام صحافی جو دن بھر خبریں اکٹھی کرکے ان اینکرز کے لیے شام کے پروگرامز کے لیے مواد اکٹھا کرتے ہیں انکو یہ حقارت کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں۔
ن لیگ کے مقابلے میں دوسری سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف، ق لیگ کے زیادہ تر رہنما چاہے اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں ہوں عام صحافیوں کو بھی ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں۔ اگر کسی مصروفیت کیوجہ سے بات نہ کرسکیں تو ہمیشہ کال بیک کرتے ہیں۔ جبکہ ن لیگ کے سیاستدانوں کا مائنڈ سیٹ اب بھی 90 کی دہائی سے باہر نہیں نکلا۔
یہ اب بھی میڈیا کو صرف اخبار اور پی ٹی وی کا دور سمجھ رہے ہیں جہاں 24 گھنٹے کے بعد خبر چھپتی یا نشر ہوتی تھی۔ انکو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اب سوشل میڈیا سے بھی آگے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا دور آگیا ہے۔ ماڈرن سیاسی جماعتیں ہمہ وقت ہر میڈیم پر اپنا بیانیہ پھیلانے اور عوام تک پہنچانے کے لیے نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ آرٹیفشل انٹیلی جنس جیسی جدید ٹیکنالوجی کا کامیابی سے استعمال کررہے ہیں۔
انکو عمران خان سے سیکھنا چاہیے کہ پچھلے ایک سال سے وہ جیل میں قید ہے لیکن انکی جماعت آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے عمران خان کی آواز میں انکا پیغام انکے فالوورز اور ووٹرز تک پہنچاتے ہیں انکے اراکین پارلیمنٹ ہوں یا پارٹی عہدیدار ہر وقت اس تگ و دو میں ہوتے ہیں کہ کیسے عمران خان کا بیانیہ عوام تک پہنچایا جائے۔
لیکن ن لیگی وزرا ہوں یا اراکین پارلیمنٹ اس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال تو کجا، کنوینشنل میڈیا تک کو بھی ان سے بات کرنے کے لیے نہ جانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ن لیگ کے ان چالاک سیاستدانوں نے اگر دور جدید کے ان تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ نہ کیا تو یہ قصہ پارینہ بن جائیں گے کیونکہ ارتقا کے اس سفر میں اگر خود کو زمانے کے مطابق نہ ڈھالا تو یہ قدرت کا نظام ہے کہ نئے آنے والے لوگ انکی جگہ لے لیں گے۔انسان کو چالاکی کچھ وقت تک کے لیے تو کامیابی دلوا سکتی ہیں لیکن لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ اس لیے خود کو بدلیں،گردنوں سے غرور اور تکبر کا سریا اتاریں اور زمانے کے مطابق خود کو ڈھالیں ورنہ تبدیلی کا خودکار نظام آپکو بدل (replace کر) دے گا۔