سرسید کے زندہ دلان لاہور

جمعرات 12 ستمبر 2024
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چند دن پہلے عظیم سماجی شخصیت عبد الستار ایدھی کے انٹرویو کا کلپ سوشل میڈیا پر سننے کا اتفاق ہوا جس میں وہ فرما رہے تھے کہ انہیں سب سے زیادہ چندہ پنجاب کے لوگ دیتے ہیں جن کی تعداد 90 فیصد ہے۔ پنجاب نے تاریخ کے مختلف ادوار میں ادبی، صحافتی، ثقافتی اور سیاسی اعتبار سے ہراول کا جو کردار ادا کیا اس کا تذکرہ تو کیا جاتا ہے لیکن فلاحی و تعلیمی کاموں میں اس کے پیش پیش رہنے کا ذکر شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔

عبد الستار ایدھی کے مذکورہ بیان سے اہلِ پنجاب کی فیاضی کی ایک بڑی پرانی روایت یاد آئی جس کا تعلق سرسید احمد خاں اور علی گڑھ تحریک سے ہے ۔اسی پر ہمیں آج بات کرنی ہے جس میں بنیادی حوالہ پنجاب کے دل لاہور کا ہے۔

مولانا الطاف حسین حالی نے سرسید کی سوانح ’حیاتِ جاوید‘ میں بتایا ہے کہ لاہوریوں نے علی گڑھ کے بانی کا کیسا شاندار خیرمقدم کیا۔ اس کا احوال حالی کے لیے شنید کے بجائے دید کا معاملہ تھا کہ وہ ان دنوں لاہور میں مقیم تھے جس کے باسیوں سے انہوں نے کہہ رکھا تھا:

مجھے تنہا نہ سمجھیں اہلِ لاہور

تصور میں مرے اک انجمن ہے

حالی نے لکھا کہ پنجاب کے مسلمان سرسید کی منادی پر اس طرح دوڑے جیسے پیاسا پانی کے لیے دوڑتا ہے۔ ان کے بقول’سچ یہ ہے کہ سرسید اور ان کے کاموں کی کسی صوبہ نے عام طور پر ایسی قدر نہیں کی جیسی پنجاب والوں نے کی‘۔

اہل لاہور کی سرسید سے محبت  کے بارے میں حالی کا یہ بیان بھی ذرا دیکھیے:

’لاہور کے جلسوں میں سرسید کی تصویریں جن کی آنہ دو آنے سے زیادہ قیمت نہ تھی، 5،5 روپیہ کی لوگوں نے خریدیں۔ بعض جواں مرد تاجروں نے اپنے منافع کا ایک معتدبہ حصہ سرسید کی یادگار کے لیے مخصوص کردیا۔ اکثر تھوڑی تھوڑی تنخواہ کے ملازموں نے اپنی ایک ایک پوری تنخواہ چندہ میں دے دی۔ کالجوں اور اسکولوں کے طلبہ نے بڑے شوق سے چندہ جمع کیا۔ طالب علموں کی ایک جماعت نے خاص اسی کام کے لیے دکان لگائی تاکہ جو کچھ اس سے فائدہ ہو اس فنڈ میں جمع کیا جائے’۔

مبتلائے علی گڑھ مختار مسعود نے ’حرفِ شوق‘ میں سرسید کی اپیل پر چندہ دینے والوں میں پنجاب کے ایک اسکول ماسٹر کا ذکر کیا ہے جنہوں نے بیٹی کی شادی کے لیے جمع شدہ 500 روپے اسٹریچی ہال کی تعمیر کے لیے دان کیے تھے۔

’حیاتِ جاوید‘ سے لاہور ریلوے اسٹیشن پر سرسید کے والہانہ سواگت کی خبر ملتی ہے اور  یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی محبت میں بیرون شہر سے بھی لوگ کھنچے چلے آئے تھے۔

راجہ دھیان سنگھ کے دیوان خانے میں سرسید کی تقریر کا انہوں نے بالخصوص حوالہ دیا ہے :

’کئی ہزار آدمیوں کا مجمع تھا، اس کا سماں مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ سامعین پر ایک سکتے کا عالم تھا اور کوئی ایسا نہ ہو گا جو زارو و قطار نہ روتا ہو اور جو اپنی بساط سے زیادہ چندہ دینے پر آمادہ نہ ہو‘

لاہور کے باسیوں میں سے کم ہی کو  علم ہو گا کہ وہ  ’زندہ دلانِ لاہور‘ کی جو ترکیب استعمال کرتے ہیں اس کی جڑیں سرسید کے پنجابیوں سے متعلق اس بیان میں ہیں جس میں انہیں زندہ دلان پنجاب کہا گیا تھا جو تبدیل شدہ صورت میں ’زندہ دلان لاہور‘ ہو کر دوام پا گیا۔

حالی نے سرسید کے پہلے دورہ لاہور کی روداد رقم کی ہے جس کے بعد وہ 4 مرتبہ یہاں تشریف لائے اور ہر بار ان کی پذیرائی ہوئی:

خدا کی برکتیں پنجاب اور پنجاب والوں پر

جنہوں نے ہر سفر میں تجھ کو آنکھوں پر بٹھایا ہے

(حالی)

1873 کے بعد 1884 میں ان کا دوسری بار لاہور آنا ہوا۔ اس دورے کی تفصیلات مولوی سید اقبال علی کی کتاب ’سید احمد خاں کا سفرنامہ پنجاب‘ کی صورت میں محفوظ ہیں جس میں سے  یہ اقتباس ملاحظہ کریں:

’لاہور کے اسٹیشن پر ہم کو  ایسا سماں دکھائی دیا جیسا کہ الف لیلہ کے قصوں میں بیان ہوا ہے۔ کل اسٹیشن لوگوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اسٹیشن پر لال بانات کا فرش بچھایا گیا تھا‘۔

سرسید کے دورے کا پروگرام انجمن اسلامیہ نے اردو انگریزی دونوں زبانوں میں شائع کیا تھا جس کے مطابق:

’سید صاحب مہاراجہ کپور تھلہ کی کوٹھی میں فروکش ہوں گے اور ان کی سواری ریل کے اسٹیشن سے لنڈا بازار ہو کر شہر کی گول سڑک سے گزر کر براہ انارکلی فرودگاہ پر  جاوے  گی‘۔

عظیم نثر نگار مولانا محمد حسین آزاد اس وقت لاہور میں آباد تھے۔ ان کے وجود سے اس شہر کی ادبی وقعت میں اضافہ ہوا تھا۔لاہور میں پیشوائی کے لیے ان کی موجودگی سرسید کے لیے باعثِ تقویت تھی۔ پنجاب یونیورسٹی میں سرسید اور یونیورسٹی کے رجسٹرار مسٹر پارکر کے درمیان آزاد کے حوالے سے دلچسپ مکالمہ ہوا۔ سرسید نے آزاد کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہمارے ہی دلی کے ہیں۔ مسٹر پارکر نے جواب دیا کہ نہیں پنجاب کے ہیں۔ ظاہری بات ہے اتنے بڑے آدمی سے کون دستبردار ہوتا ہے۔ اس لیے سرسید نے کہا کہ پنجاب کی خوش قسمتی ہے کہ ہم سے چھین لیا مگر ہیں تو ہماری دلی کے ہی۔

پنجاب نے آزاد کو کیا چھیننا تھا وہ خانماں خراب تو حوادثِ زمانہ کی وجہ سے لاہور کی جھولی میں آگرے اور پھر یہی شہر ان کا مستقر ٹھہرا۔

دلی والوں کے  تذکرے سے  ڈپٹی نذیر احمد اور آزاد کے تعلق سے ایک دلچسپ حکایت بھی ذہن میں آتی ہے جسے عبد الرزاق کان پوری  نے ’یاد ایام‘ میں بیان کیا ہے۔

لاہور میں ایجوکیشنل کانفرنس کے پہلے اجلاس میں سرسید کی فرمائش پر ڈپٹی نذیر احمد کے لیکچر کا بھی اہتمام تھا۔ یہاں اپنے ہمدمِ دیرینہ آزاد سے ملاقات ہوئی تو ان سے کہا اگر وہ ان کے اطمینان کی خاطر لیکچر پر ایک نظر ڈال سکیں۔ آزاد نے ایک گھنٹہ اسے پڑھنے پر صرف کیا جس کے بعد صورت حال یہ تھی کہ ’کوئی صفحہ ایسا نہ تھا جو اصلاح و ترمیم سے باقی رہا ہو، اخیر میں فرمایا: بھئی نذیر تم اردو لکھنا بھول گئے ہو‘۔

اب ڈپٹی نذیر سے یہ کہنا کہ وہ اردو لکھنا بھول گئے ہیں، یہ آزاد ہی کہہ سکتے تھے اور انہی  کو زیبا تھا۔

سرسید کے عشاق میں ایک سے بڑھ کر ایک عاشق تھا۔ ان میں ایک قابلِ قدر ہستی مولوی میر حسن کی تھی جنہیں ہم  علامہ اقبال کے استاد کی حیثیت سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ سرسید سے ملنے سیالکوٹ سے خاص طور پر لاہور کا رخ کرتے تھے۔ ان کے شاگردِ رشید اقبال بھی سرسید اور ان کی تحریک سے متاثر تھے۔ ’سید کی لوحِ تربت‘ اور  ’طلباء علی گڑھ کالج کے نام‘ سے نظمیں اس کا ثبوت ہیں:

اَوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے

عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے

طائرِ زیرِ دام کے نالے تو سُن چُکے ہو تم

یہ بھی سُنو کہ نالۂ طائرِ بام اور ہے

سرسید کے  بارے میں اقبال نے کہا تھا:

’سرسید کی ذات بڑی بلند تھی، بڑی ہمہ گیر، افسوس ہے مسلمانوں کو پھر ویسا کوئی رہنما نہیں ملا‘۔

علی گڑھ تحریک کے اثرات کم ہونے پر بھی وہ مشوش ہوتے اس لیے تحریک خلافت سے دور رہے۔

اقبال نے اکبر شاہ نجیب آبادی کے نام خط میں لکھا :

’پیشہ ور مولویوں کا اثر سر سید احمد خاں کی تحریک سے بہت کم ہو گیا تھا مگر خلافت کمیٹی نے اپنے پولیٹیکل فتووں کی خاطر ان کا اقتدار ہندی مسلمانوں میں پھر قائم کر دیا۔یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی جس کا احساس ابھی تک غالباً کسی کو نہیں ہوا‘۔

تحریک خلافت کا ہمنوا نہ ہونے پر مولانا محمد علی جوہر بھی اقبال سے شاکی تھے اور اختلافات اس حد تک بڑھے کہ انہیں جب علامہ اقبال کی ’دریوزہ خلافت‘ جیسی نظموں کا خیال آتا، تو قلب پر وہی اثر ہوتا جو ایسے خاندان والوں کا ہوتا ہے جس کی لڑکی کسی شرمناک فعل کے ارتکاب کے باعث گھر سے نکل گئی ہو‘۔

ممتاز نقاد شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے مضمون ’مولانا محمد علی جوہر کی نظم و نثر‘ میں یہ بیان ظہیر علی صدیقی کی کتاب ’مولانا محمد علی جوہر کی اردو ادبی خدمات کا تنقیدی جائزہ‘ سے نقل کرنے کے بعد لکھا کہ آیندہ کے واقعات نے ثابت کیا کہ اقبال کا فیصلہ درست اور محمد علی جوہر کا موقف غیر تاریخی تھا۔

اب تھوڑی بات اقبال اور مولانا کے مراسم پر بھی ہو جائے۔ اقبال کے ان  سے قرب کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جاوید اقبال نے بچپن میں جس پہلے شخص کو اپنے والد کو اقبال کہہ کر مخاطب کرتے دیکھا وہ مولانا محمد علی جوہر تھے۔ ایسی دوسری شخصیت سر راس مسعود کی تھی جو سرسید کے پوتے تھے۔

اقبال کی شاعری کے محمد علی بہت قائل تھے اس لیے انہوں نے ’اسرارِ خودی‘ کو جامعہ ملیہ کے نصاب میں شامل کیا تھا۔

فکر کی دنیا میں سر کھپانے کے ساتھ وہ اقبال سے عمل کی دنیا میں بھی سرگرم کردار کے خواہاں تھے جس پر ایک دفعہ اقبال نے ان سے کہا تھا:

’محمد علی! میں قوم کا قوال ہوں، اگر قوال کو خود ہی حال پڑ جائے تو پھر قوالی کہاں رہے گی‘۔

سرسید کی پنجاب میں بے پناہ پذیرائی جہاں عوام کی دریا دلی کی نشانی ہے وہیں ان کے کھلے ذہن کی خبر بھی دیتی ہے کیونکہ وہ ایسے تعلیمی ادارے کی ترقی کے لیے پیش پیش تھے جو ان کے خطے سے کہیں بہت دور قائم ہو رہا تھا۔ اس نکتے کو بعض اخبارات نے اٹھایا بھی کہ علی گڑھ کے بجائے اپنے ہاں کے تعلیمی اداروں کی مالی اعانت کرنی چاہیے لیکن سرسید کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اس لیے کوئی پراپیگنڈہ ان کی مقبولیت میں کمی نہ لا سکا۔

مؤرخ احمد سعید نے ’حصولِ پاکستان‘ میں سرسید کی مالی معاونت میں پنجاب کی اولیت کا حوالہ دیا ہے۔

احمد سعید نے ’اسلامیہ کالج لاہور کی صد سالہ تاریخ‘ میں اس تعلیمی ادارے کو پنجاب کا علی گڑھ قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرسید کا قائم کردہ ادارہ لاہور میں تعلیمی ترقی کا استعارہ تھا۔

پنجاب کے عوام کی طرف سے سرسید کا ساتھ دینا اس وقت اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب اپنے صوبے کے لوگوں نے سرسید کے   منصوبے کو ہی رد نہیں کیا بلکہ ان پر پست سے پست الزام لگانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ اسلامیہ کالج کے سابق پرنسپل اور پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر حمید احمد خان نے اپنے مضمون میں اس پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا:

’سید صاحب کی تحریک کا مرکز قدرتاً صوبہ آگرہ و اودھ تھا مگر قائد قوم کو ذاتی مخاصمت اور اصولی نزاع کے جن حملوں کا مقابلہ کرنا پڑا ان کا گڑھ بھی آگرے اور اودھ کا علاقہ تھا۔ لعن طعن، سَبّ و شَتم، تذلیل و تکفیر، کوئی وار نہ تھا جس سے ہمارے قائد اول کو قوم کی رہبری کے زمانہ آغاز میں ایک دن کے لیے بھی امان ملی ہو۔۔۔ یہ صورت حال تھی جب سرسید دسمبر 1873 میں لاہور تشریف لائے۔ خود اپنے صوبے کی آبادی کے سوادِ اعظم نے ان سے جو سلوک روا رکھا تھا، اس کے برعکس اہل پنجاب کی طرف سے پرجوش خیر مقدم نے سرسید کے لیے تقدیر کی بازی کا رخ پلٹ دیا‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp