اٹارنی جنرل بتائیں کہ عمران خان کا کیس ملٹری کورٹ میں چلے گا یا نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

جمعرات 12 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کو ممکنہ طور پر فوج کی تحویل میں دینے کیخلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے بذریعہ اٹارنی جنرل آفس جواب طلب کرلیا ہے۔

عمران خان کو ممکنہ طور پر فوج کی تحویل میں دینے کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ کوئی کیس نہیں لیکن آگے ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کو فوج کی تحویل میں لیا گیا تو پارٹی کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

‏ وکیل عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ ہمیں اس کا خدشہ ہے، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ‏یہ سیاست ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی ملٹری حراست سے متعلق بیان ‏ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے آیا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بولے کہ ‏وہ بھی سیاست ہے، جس پر عمران خان کے وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ اگر یہ سیاست ہے تو آپ یہ اپنے آرڈر میں لکھ دیں۔ بعدازاں، عدالت نے وفاقی حکومت سے بذریعہ اٹارنی جنرل آفس جواب طلب کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: جنرل (ر) فیض حمید کو پاک فوج نے کیوں تحویل میں لیا؟

عدالت کے حکم پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے سامنے پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ اس درخواست پر لگے اعتراض کو پہلے دیکھا جائے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ‏اعتراض کا تعین ہوچکا، آپ ہمیں ملٹری ٹرائل کے حوالے سے آگاہ کریں، ڈی جی آئی ایس پی آر کے ملٹری ٹرائل کے حوالے سے بیان کے بعد حکومت کو اس پر واضح پوزیشن لینی چاہیے تھی،درخواست گزار کے وکیل کہتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے بیان آیا ہے، اگر ایسا ہے تو فیڈریشن کی طرف سے واضح موقف آنا چاہیے، آج ہم کہہ دیں کہ ابھی کچھ نہیں کل آپ ملٹری ٹرائل کا آرڈر لے آئیں پھر کیا ہو گا، وفاقی حکومت سے ہدایات لے کر پیر کو عدالت کو واضح طور پر آگاہ کریں۔

بعدازاں، عدالت نے درخواست کی سماعت  16 ستمبر تک ملتوی کردی۔ عدالت نے وفاقی حکومت سے بذریعہ اٹارنی جنرل آفس وضاحت طلب کی ہے کہ بتایا جائے کہ بانی پی ٹی آئی کا ملٹری ٹرائل ہوگا یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملٹری کورٹس میں 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل کیسے ہوا؟

واضح رہے کہ 6 ستمبر کو پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے میڈیا بریفنگ کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ فوجی قانون کے تحت، جو بھی شخص آرمی ایکٹ کے تابع افراد کو ذاتی یا سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے اور اس طرح کی کارروائیوں کے شواہد موجود ہوں تو اس کے خلاف قانون کارروائی کی جاسکتی ہے۔

جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کے تحت جاری کارروائی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کے بعد پی ٹی آئی نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ فوج عمران خان کا ملٹری ٹرائل کرسکتی ہے۔ اس خدشے کو جواز بنا کر بانی پی ٹی آئی نے اپنے وکیل کی وساطت سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی جسے کل عدالت نے سماعت کے لیے مقرر کرلیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp