گُھونگھا یا سنیل ایک چھوٹا سا جاندار ہے جو خشکی اور سمندر دونوں میں پایا جاتا ہے، اور انسانی تاریخ میں ہزاروں سال سے انسانی خوراک کا حصہ چلا آ رہا ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں اس کی بطور خوراک بہت مانگ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2017 میں دنیا میں سوا ارب ڈالر کا گُھونگا کھانے کے لیے جمع کیا گیا۔
سال 1980 میں چلی کے ایک گُھونگھا فارم، جہاں سے گھونگھے یورپ درآمد کیے جاتے تھے، ملازمین نے یہ بات نوٹ کی کہ جو لوگ دوران کام گھونگھے پکڑ کر ادھر ادھر رکھتے ہیں، ان کے ہاتھوں کی جلد بہت زیادہ ملائم ہے اور ان کے جلد پر لگنے والے زخم یا کٹ بہت جلد ٹھیک ہوجاتے ہیں۔
اس حیرت انگیز انکشاف کے بعد ان پر مزید تحقیق کرنے سے پتا چلا کہ گھونگھے خاص کیفیت میں ایسی رطوبت جسے کا نام (snail slime)دیا گیا ہے، خارج کرتے ہیں، جن میں موجود کیمیائی مواد ایلنٹیون، گلائیکولک ایسڈز، میوکو پولی سیکرائیڈز اور کولاجین اور ایلاسٹین انسانی جلد کے لیے بے حد مفید ہیں۔
اس بات کا علم ہوتے ہی سب سے پہلے چلی کی مشہور زمانہ میک اپ کا سامان بنانے والی کمپنی نے جلد کی کریم میں اس کا استعمال شروع کیا۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد جنوبی کوریا جوکہ دنیا بھر میں میں معیاری میک اپ کا سامان اور جلد کی کریمیں بنانے میں پہلے نمبر پر ہے، نے اس سنیل سلائم کو اپنی مصنوعات میں ڈالنا شروع کیا۔
ان مصنوعات کی افادیت اور بطور خاص جلد کی جھریوں کو ختم کرنے کی صلاحیت نے اسے دنیا بھر میں فوری پذیرائی سے ہمکنار کردیا، اور آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ جلدی کریمز سنیل سلائم سے بنی ہوئی ہیں اور فروخت ہورہی ہیں۔
سنیل سلائم کی افادیت اور مانگ دیکھتے ہوئے اٹلی، بھارت، تھائی لینڈ، کینیا، بنگلہ دیش، ویتنام، چین اور دیگر ممالک نے اس کی بڑے پیمانے پر فارمنگ شروع کردی ہے۔ مگر آج بھی اس کی پیداوار اس کی طلب سے انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے سنیل سلائم کا خشک کیا گیا پاوڈر دنیا کے مہنگے ترین کیمیائی مرکبات میں سے ایک ہے۔ اس کی قیمت 65 سے 80 ہزار امریکی ڈالر فی کلوگرام ہے جبکہ سونے کی قیمت فی کلوگرام 56 ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
سنیل کی 2 اقسام Helix pomatia اور Helix aspera زیادہ تر اس کام کے لیے پالی جاتی ہیں۔ یہ عام طور پر مختلف پودوں کے پتے اور پھول کھاتا ہے۔ 25 کلو صحت مند سنیل سے روزانہ 3 کلو سنیل سلائم حاصل کیا جاسکتا ہے۔
سدرہ سجاد پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے سنیل فارمنگ کی بنیاد رکھی۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے 15 کلو گرام گھونگھوں سے ایک کلو سلائم حاصل کر پاتی ہیں اور اس وقت ان کے پاس ہزاروں کی تعداد میں گھونگھے ہیں اور ان کی اس فارمنگ سے وابستہ لوگوں کی تعداد تقریباً 30 سے زیادہ ہے۔
بائیو ٹیکنالوجسٹ انضمام کہتے ہیں کہ پہلے پہل سنیل سلائم حاصل کرنے کے لیے سنیل پر سرکے اور ٹاٹری کے محلول کا سپرے کیا جاتا تھا۔ اس عمل سے سنیل ناخوش ہوتا ہے اور جو سلائم نکالتا ہے اس میں مفید اجزا کی مقدار کم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس عمل کے دوران بہت سے سنیل زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں، مگر آجکل ایسا نہیں کیا جاتا، آج کل سنیل کو ایک سٹیل کے برتن میں شیشے کے گول گیند سے ڈھانپ کر ان پر ایک گھنٹہ کے لیے اوزون گیس کا سپرے کیا جاتا ہے۔ جس سے نہ صرف ان پر موجود بیکٹیریا وغیرہ ختم ہوجاتے ہیں بلکہ سنیل اس عمل سے سکون محسوس کرتے ہیں۔
اس کے بعد ان پر ایک قسم کا کیمیائی محلول سپرے کیا جاتا ہے جس سے یہ بہت اچھے معیار کا سنیل سلائم خارج کرتے ہیں۔ اس سلائم میں مفید اجزاء کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس عمل سے گھونگھوں کی صحت بھی متاثر نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چونکہ نئے علم کا رجحان نہیں ہے اس لیے ہم دنیا بھر میں تہلکہ مچانے والی یہ نئی صنعت سے بھی نابلد ہیں، حالانکہ پاکستان کی آب و ہوا سنیل کی فارمنگ کے لیے بے حد سازگار ہے۔