آج کل پاکستان میں صحافت،صحافیوں اور صحافتی اصولوں پہ شدید بحث جاری ہے۔ ہم صحافت پڑھانے والے تو درکنار، نیوز میڈیا پر تھوڑا بہت وقت گزارنے والے عام آدمی کو بھی پہچان ہو چکی ہے کہ کون سا صحافی کس سیاسی جماعت کے ایجنڈے پہ ہے، کس سیاسی جماعت کے کون کون سے صحافی ہیں، کون سا نیوز چینل کس سیاسی لیڈر کو پروجیکٹ کر رہا ہے، کون سا اخبار کس سیاسی جماعت کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ سیاسی جماعتوں کے ووٹرز اور کارکن اپنی اپنی جماعتوں کے حامی صحافیوں کے کالمز پڑھتے ہیں، انہی کے ٹاک شوز اور وی لاگز بھی دیکھے جاتے ہیں۔ ناظرین کو ہیڈ لائنز میں خبروں کی ترتیب اور ذومعنی الفاظ کا استعمال بھی سمجھ میں آتا ہے۔ چینلز اور اخبارات کی ایڈیٹوریل پالیسیز پہ بھی لوگ نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اب بات چل ہی پڑی ہے تو بات سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
پاکستان یا یوں کہہ لیجیے کہ برصغیر میں پروپیگنڈا جرنلزم کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ پاکستان کے وجود سے پہلے جب تحریک پاکستان عروج پہ تھی تو مولانا ظفر علی خان اپنے اخبار ” زمیندار ” ، مولانا محمد علی جوھر اپنے اخبارات ” ہمدرد ” اور “کامریڈ “، مولانا ابوالکلام آزاد اپنے اخبارات ” الہلال ” اور ” البلاغ” کے ذریعے پروپیگنڈا جرنلزم ہی کیا کرتے تھے۔ آزادی سے پہلے کی مسلم صحافت بھی دو نظریات میں بٹی ہوئی تھی اور وہ دونوں سیاسی نظریات تھے۔ یا اگر آپ انہیں سیاسی و مذہبی نظریات بھی کہہ لیں تو کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔ مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوھر کے اخبارات تحریک پاکستان اور دو قومی نظریہ کی حمایت میں خبریں اور مضامین چھاپ رہے تھے۔ قائد اعظم کو فل پیج اور فرنٹ پیج کوریج دی جا رہی تھی۔ جب کہ مولانا ابوالکلام آزاد مخالف سمت میں کھڑے تھے۔
آپ اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ جب آپ پر بیرونی طاقت قابض ہو، آپ سپر پاور کی کالونی ہوں، وسائل کی کمی ہو، اور مخالف بھی مذہب کے نام پر پروپیگنڈا کر رہا ہو تو اس طرح کی صحافت واجب ہو جاتی ہے۔ جی ہاں یہ دلیل قیام پاکستان کی کوششوں کی حد تک شاید درست ہو لیکن آزادی کے بعد صحافت کو بالا دست طبقوں کے اشاروں پہ نچانا کسی طور بھی درست نہیں اور بلخصوص تب جب کہ اشارے بے تالے اور بے سرے ہوں تو صحافت کے پاؤں بھی ردھم سے نہیں پڑ سکتے۔ آزادی کے بعد بھی ریاست یا یوں کہہ لیجئے کہ اسٹیبلشمنٹ نے دو قومی نظریہ کے حق میں بیانیہ بنانے کے لیے میڈیا کا استمعال کیا۔ جو بھی اخبار ذرا سا انحراف کرتا فوراً بند کر دیا جاتا۔ پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس 1963 جیسے کالے قوانین نافذ کر دئیے جاتے۔ ٹی وی کا ظہور ہوا تو یوں سمجھیے ریاست کے ہاتھ ایک ہتھیار لگ گیا۔ پی ٹی وی کو خاص قسم کے پروپیگنڈا اور مخصوص اور مصنوعی فکر کی ترویج کے لیے عشروں استعمال کیا گیا۔ پرنٹ میڈیا میں روزنامہ جنگ اور نوائے وقت کی فکری و فنی لڑائی نے بھی طاقتوروں کے ہاتھ مضبوط کیے۔ کیوں کہ ان دونوں اخبارات نے بیانیہ کی جنگ میں پیشہ وارانہ اصولوں کو کمپرومائز کیا۔ آج بھی نوائے وقت کے اندرونی صفحات پہ آپ کو ” افغان باقی، کُہسار باقی اَلْحُکْمُ لِلّٰہ! اَلْمُلْکُ لِلّٰہ لکھا ہوا مل جائےگا۔
ریاست کی سیاسی پالیسیز میں مذہب کے تڑکے اور میڈیا کی بھرپور سپورٹ نے اس بیانیہ کو فروغ دیا جس نے نہ صرف ریاست بلکہ عوامی مفادات کا بھی نقصان کیا۔ میڈیا نے غیر جانبداری کے اولین صحافتی اصول کو نظر انداز کیا، عوامی مفاد پہ مالی، حکومتی اور “ریاستی مفادات” کو ترجیح دی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ پی ٹی وی، نواے وقت، جسارت، اور مساوات جیسے صحافتی اداروں نے سطحی نظریات اور شخصیت پرستی کی تمام حدیں عبور کر دیں۔ کالمز، اداریے، فیچرز، اور ہیڈلائنز سے سیاسی پروجیکشن، سنسرشپ اور ایڈیٹوریل مس کنڈکٹ صاف جھلکتے تھے۔ اور یہ سب پیشہ وارانہ دیانت داری کی قیمت پہ ہو رہا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا کی پرائیویٹ ملکیت نے کسی حد تک پی ٹی وی کی فکری اجارہ داری ختم تو کی مگر پھر خود مختلف سیاسی نظریات میں بٹ گیا۔ اصل کھیل عمران خان اور ان کی جماعت کے سیاسی طور پہ مضبوط ہونے کے بعد شروع ہوا۔ یعنی 2011 کے بعد۔ جب اسٹیبلشمنٹ خان صاحب کو پروان چڑھا رہی تھی اور میڈیا ان کے سلیبرٹی ڈھانچے پر پیشہ وارانہ اصول وار وار کے پھینک رہا تھا۔ اسی دوران نون لیگ نے بھی اشتہارات “اور ” ووٹ کی عزت ” کے سیاسی بیانیے سے میڈیا کو متوجہ کیا اور آدھے میڈیا کو ساتھ ملا بھی لیا ۔
اب تو لائن بہت واضع ہو گئی تھی، اسٹیبلشمنٹ کا میڈیا، نون لیگ کا میڈیا اور تحریک انصاف کا میڈیا۔ کھیل دلچسپ مرحلے میں تب داخل ہوتا ہے جب اسٹیبلشمنٹ کا جھکاؤ ایک سیاسی جماعت سے راتوں رات دوسری سیاسی جماعت کی طرف ہو جاتا ہے اور حامی میڈیا کو اپنا پورا کا پورا کانٹینٹ بدلنا پڑتا ہے۔ اب اتنی جلدی اور ہڑبونگ میں سب کچھ بدلیں گے تو پکڑے تو جائیں گے ۔
صورت حال اور بھی مزاحیہ ہو جاتی ہے جب ایک سیاسی جماعت اپنے صدیق جان اور عمران ریاض کی گرفتاری کی مذمت تو کرتی ہے مگر مطیع اللّه جان یا اسد طور پر حملوں پہ خوشی مناتی ہے۔ دوسری سیاسی جماعت ابصار عالم یا فہد حسین کے ساتھ تو کھڑی ہو گی مگر جمیل فاروقی یا صابر شاکر کو صحافی ہی تسلیم نہیں کرتی۔ عمران خان نے جیو کا بائیکاٹ کر رکھا تھا اور مریم نواز اے آر وائی کا مائیک بھری پریس کانفرنس سے اٹھوا دیتی ہیں۔ لیکن آزادی صحافت کے علمبردار اور مشعل بردار ہونے کا دعوی دونوں بڑی جماعتیں کرتی ہیں۔ مگر آزادی اظہار کی اہمیت اور ضرورت تب یاد آتی ہے جب اپنا حمایت یافتہ صحافی زیر عتاب ہو۔ آپ نے غور کیا ہو گا کہ اب صرف مخالف سیاسی رہنماؤں پہ ہی مقدمات نہیں ہوتے بلکہ مخالف صحافیوں کو بھی ساتھ ہی رگڑا دیا جاتا ہے۔ آپ آرٹیکل پڑھتے ہوئے فیس بک یا ٹویٹر کا چکر لگا آئیں بے شمار مثالیں آپ کے سامنے آجائیں گی۔ اب اتنی گھبمیر صورت حال میں عام آدمی یہ کیسے پہچان سکتا ہے کہ اصل میں صحافی کون ہے اور سیاسی جماعت کا کارکن کون ہے۔
صحافی خواتین و حضرات بھی نوٹ فرما لیں کہ اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے ٹرولز کا حصہ ہیں اور آپ اپنی خبر، ٹویٹ، وی لاگ یا رپورٹ میں وہی الفاظ استعمال کرتے ہیں جو سیاسی کارکن اپنے مخالفین کے لیے طنزیہ استعمال کرتے ہیں تو آپ سیاسی کارکن یا ٹرولر تو ہوسکتے ہیں مگر آپ صحافی نہیں ہیں۔ اگر آپ کو کچھ خاص قسم کی برائیاں ایک سیاسی جماعت یا اس کے لیڈرز میں نظر آتی ہیں اور آپ رپورٹ بھی کرتے ہیں۔ مگر اسی طرح کی خامیاں آپ اپنی پسندیدہ جماعت اور اس کے لیڈر کی نظر انداز کر رہے ہیں تو آپ شخصیت پرست ووٹر تو ہو سکتے ہیں مگر آپ صحافی نہیں ہیں۔ اگر آپ کو سننے، پڑھنے یا فالو کرنے والوں کا تعلق کسی خاص سیاسی فکر سے ہے تو آپ بھی کہیں نہ کہیں اس فکر سے متاثر ہیں۔ اور یہ عنصر غیر جانب داری کے لیے شدید خطرناک ہے۔ اگر عام قاری یا ناظر آپ کے بارے میں طے کر چکا ہے کہ آپ فلاں سیاسی لیڈر کے مخالف اور فلاں کے حامی ہیں تو آپ کی کریڈیبلٹی مشکوک ہے۔ اگر آپ خبری اقدار یا صحافتی اصولوں پہ فقط اس لیے کمپرومائز کر جاتے ہیں کہ آپ کی فالوونگ میں کمی نہ آجائے یا فلاں سیاسی لیڈر آپ سے ناراض نہ ہو جائے تو آپ شوبز یا سکرین سلبرٹی تو ہو سکتے ہیں مگر آپ صحافی نہیں ہیں۔ اگر آپ ملکی آئین پہ سیاسی رہنماؤں کی چالوں اور بیانات کو مقدم جانتے ہیں تو آپ نے غلط پیشہ چن لیا ہے۔ اگر آپ حقائق جانے بغیر رپورٹ کرنے کے عادی ہیں تو بھی آپ غلط جگہ کھڑے ہیں۔ اگر آپ سیاسی جماعتوں کی اقتدار کی لڑائی کو اپنے تئیں حق و باطل کا معرکہ قرار دے رہے ہیں تو آپ غلط زمانے میں غلط صحافت فرما رہے ہیں۔ درست زمینی حقائق کے ساتھ غیر جانبدارانہ رپورٹنگ اور انہی حقائق کی بنیاد پہ تجزیہ ہی اصل صحافت ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو معذرت کے ساتھ آپ اور کچھ بھی ہو سکتے ہیں مگر صحافی نہیں۔