خیبرپختونخوا حکومت نے تعلیم سے محروم بچوں کو اسکولوں کی جانب راغب کرنے کے لیے ایجوکیشن کارڈ اور وظائف سمیت مختلف منصوبے وضع کیے ہیں۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر تعلیم خیبرپختونخوا فیصل خان ترکئی کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں اسکول جانے کی عمر کے 47 لاکھ بچوں کو واپس اسکولوں میں لانے کے لیے صوبائی حکومت نے ایجوکیشن کارڈ، اسکول کے لیے کرایے کی عمارت، وظیفے اور پبلک پرائیوٹ پارٹنرشب منصوبوں کا آغاز کیا ہے تاکہ ایک بچہ بھی تعلیم سے محروم نہ رہے۔
فیصل خان ترکئی نے تعلیم کے لیے صوبائی حکومت کے اقدامات اور پالیسی پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ صوبائی حکومت نے ابتدائی و ثانوی تعلیم کے لیے خطیر فنڈز مختص کیے ہیں اور ایسے منصوبے متعارف کیے جا رہے ہیں جن کے نتائج جلد سامنے آسکیں۔
اسکولوں سے باہر 47 لاکھ بچوں کو کیسے واپس لایا جائے گا؟
فیصل خان ترکئی نے تعلیم سے محروم بچوں کو اسکولوں کی جانب راغب کرنے کو حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ بہت سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بچے اسکول نہیں جا پا رہے ہیں تاہم اب حکومت ان ایشوز کو ختم کرنے پر کام کر رہی ہے۔
ایجوکیشن کارڈ
وزیر تعلیم خیبر پختونخوا نے کہا کہ صوبائی حکومت ایجوکیشن کارڈ کی منظوری دی چکی ہے جس کا آغاز پسماندہ ضلع اپر چترال سے ہو گا۔
ان کے مطابق ایجوکیشن کارڈ کے ذریعے حکومت اسکول جانے والے بچوں کی براہ راست مدد کرے گی اور بچوں کے تمام تعلیمی اخراجات اس کارڈ سے پورے ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ایجوکیشن یا تعلیم کارڈ پر اب بھی کام جاری ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تعلیمی کارڈ میں اسکول فیس، اسکالرشپس اور دیگر اخراجات کے لیے پیسے دیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سرکاری اسکول کے بچوں کو مفت کتابیں دی رہی ہے اور مستقبل میں حکومت کتابوں کے پیسے کارڈ کے ذریعے دے گی تاکہ بچے کتابیں مارکیٹ سے بروقت خرید سکیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جن علاقوں میں سرکاری اسکول نہیں ہوئے وہاں کارڈ سے پرائیوٹ اسکول فیس کی ادائیگی ممکن ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ معمولی ضروریات پوری نہ ہونے سے بچے اسکول نہیں جا رہے جبکہ تعلیم کارڈ سے ایسے بچوں کو فائدہ ہوگا۔
اسکولوں کے لیے کرائے کی عمارت
فیصل خان ترکئی نے بتایا کہ صوبے میں محکمہ تعلیم کو اسکولوں کی کمی کا سامنا ہے جبکہ ایک اسکول کی عمارت تعمیر ہونے سے لے کر اس کے فعال ہونے تک 7 سے 8 سال کا وقت لگ جاتا ہے لہٰذا اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے اب اسکول کے لیے عمارت تعمیر کرنے کے بجائے اسے کرایے پر لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کرائے کی عمارت لینے کا مقصد اسکول کو جلد سے جلد فعال کرنا ہے تاکہ بچوں کی تعلیم جاری رہ سکے۔
بچیوں کے لیے وظیفے
فیصل خان نے بتایا کہ صوبائی حکومت صوبے میں بچیوں کی انرولمنٹ کو بڑھانے کے لیے وظیفے دے رہی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت اب مزید بچیوں کو وظیفے دینے کا فیصلہ کیا ہے کہ انہیں اسکولوں میں لایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ضم اضلاع میں بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہی ہے جہاں دہشتگردی کے باعث تعلیم پر کافی منفی اثر پڑا ہے۔
پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ
فیصل خان ترکئی نے بتایا کہ حکومت نے تعلیم کے فروغ کے لیے صوبے میں پرائیوٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر اسکول چلانے کے لیے منصوبے کی بھی منظوری دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت ابتدائی طور پر 7 اسکولوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ وہ اسکول ہیں جہاں عمارت سرکاری ہے اور غیر فعال ہے اس لیے انہیں پرائیوٹ سیکٹر کی مدد سے فعال کیا جائے گا جس سے سرکار پر بوجھ کم پڑے گا اور معیار تعلیم بھی بڑھے گا۔
11 لاکھ بچوں کو اسکولوں میں واپس لایا گیا
فیصل خان نے بتایا کہ حالیہ داخلہ مہم کے دوران اہم کامیابی ہوئی ہے اور اسکولوں سے باہر 11 لاکھ بچوں کو واپس اسکولوں میں لایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خصوصی داخلہ مہم دوبارہ شروع کی جائے گی جس سے مزید بچے اسکولوں میں آئیں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کی نئی پالیسی سے تمام بچے واپس اسکولوں میں ہوں گے۔
ضم اضلاع میں 12 لاکھ بچے اسکول سے باہر، بچیوں کا تناسب 75 فیصد
صوبائی وزیر تعلیم کے مطابق قبائلی اضلاع میں 12 لاکھ اسکول جانے کی عمر کے بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میں 75 فیصد بچیاں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں دہشتگردوں نے اسکولوں کو نشانہ بنایا جس سے تعلیم کا بہت نقصان ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ضرورت کے مطابق اسکول جلد فعال کیے جائیں گے اور اس مقصد کے لیے عمارتیں کرائے پر بھی لی جائیں گی جبکہ عارضی بنیادوں پر اساتذہ بھی بھرتی کیے جائیں گے۔