غزہ میں جنگ کے لیے افریقی پناہ گزینوں کو اسرائیلی فوج میں بھرتی کرنے کا انکشاف

بدھ 18 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسرائیلی فوج مبینہ طور پر غزہ میں اپنی جنگی کوششوں کی حمایت کے لیے افریقی پناہ گزینوں کو بھرتی کر رہی ہے، جس کے عوض انہیں اسرائیل میں مستقل رہائش کی پیشکش کی جارہی ہے، تاہم پناہ گزینوں کی وکالت کرنے والے گروپوں نے اس حکومتی پیشکش پر شک کا اظہار کیا ہے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق حکومت غزہ کی جنگ کے لیے افریقی پناہ گزینوں کو بھرتی کر رہی ہے جس کے بدلے میں انہیں اسرائیل میں مستقل رہائش دی گئی ہے، فوجی ذرائع نے معتبر اسرائیلی جریدے ہارٹز کو تصدیق کی ہے کہ اس نوعیت کی بھرتیاں دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے مشیروں کی قانونی رہنمائی کے ساتھ کی جا رہی ہیں۔

لیکن بھرتی کیے جانیوالوں کو کس طریقے سے استعمال کیا جائے گا اسے عام نہیں کیا گیا ہے، اسرائیل میں پناہ گزینوں کی وکالت کرنے والی سرکردہ تنظیم ہاٹ لائن فار ریفیوجیز اینڈ مائیگرنٹس میں پبلک پالیسی کی ڈائریکٹر شیرا ایبو کے مطابق، ملک بھر میں تقریباً 30,000 پناہ کے متلاشی ہیں، جن میں سے بیشتر تر سوڈان اور اریٹیریا سے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لبنان میں حزب اللہ کے ہزاروں پیجرز کیسے پھٹے؟

لیکن اسرائیل میں پناہ گزینوں کے 1 فیصد سے بھی کم دعوے منظور کیے گئے ہیں، اقوام متحدہ کے 1951 کے پناہ گزینوں کے کنونشن کے مطابق پناہ گزین وہ ہوتا ہے جسے میزبان ریاست یا بین الاقوامی ادارہ تسلیم کرتا ہے کہ مذکورہ شخص ظلم کا شکار ہونے کے خوف کی وجہ سے اپنے وطن واپس نہیں جا سکتا، اس کے برعکس، پناہ کا متلاشی وہ شخص ہے جو ابھی تک اپنے اس حق کے تسلیم کیے جانے کا انتظار کر رہا ہے۔

شیرا ایبو کے مطابق بہت سے پناہ گزینوں کی درخواستیں مسترد نہیں کی جاتیں بلکہ انہیں 5 اور کبھی 10 سال یا اس سے بھی زائد عرصے کے لیے زیر التوا رکھا جاتا ہے، جس سے وہ قانونی شکنجے میں جکڑے جانے کے باعث مسلسل ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار رہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی فوج میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ، آرمی چیف دسمبر میں عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے

7 اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان شروع ہونے والی جنگ کے دوران 3 پناہ گزینوں سمیت 1,100 سے زائد اسرائیلی ہلاکتیں ہوئی ہیں، جس کے بعد اسرائیل میں رہنے اور کام کرنے والوں میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے کی لہر کو جنم دیا تھا۔

بہت سے پناہ کے متلاشی، اپنی قانونی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے بے چین، سویلین کمانڈ سینٹرز اور زرعی کاموں میں بھرتی ہونے کی پیشکش کرتے ہیں، اسرائیلی اخبار ہاریٹز کے مطابق، تب ہی فوجی حکام نے اس خواہش کا فائدہ اٹھانے کا موقع دیکھا۔

اسرائیل کے لیے زندگی اور موت کی جنگ

ایک پناہ کے متلاشی نے، جس کی شناخت ہاریٹز کے ذریعہ صرف A  کے طور پر ہوئی، اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ 16 سال کی عمر میں اسرائیل پہنچنے کے بعد، اس نے اسرائیل ڈیفنس فورسز میں شامل ہو کر معاشرے میں ضم ہونے کی کوشش کی۔

جنگ کے آغاز پر، پولیس افسر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کسی شخص نے اسے فون پر ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر کسی سیکیورٹی ادارے میں رپورٹ کرے۔ ’انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ فوج میں شمولیت کے لیے خاص لوگوں کے متلاشی ہیں، ان کے مطابق یہ اسرائیل کے لیے زندگی یا موت کی جنگ ہے۔‘

مزید پڑھیں: غزہ میں حماس کا گلا گھونٹ دیا، اسرائیلی وزیر دفاع کا دعویٰ

حکام کے ساتھ کئی ملاقاتوں کے بعد، A کو بتایا گیا کہ، اگر وہ فوج میں شمولیت کے لیے اندراج کراتا ہے، تو وہ دیگر پناہ گزینوں کے ساتھ 2 ہفتوں کی تربیت سے گزرے گا اور اسرائیل کی ریاست سے دستاویزات حاصل کرے گا، تاہم، وہ فوجی تربیت شروع ہونے سے قبل ہی دستبردار ہوگیا کیونکہ فوجی زندگی بقول اس کے اس کے لیے نہیں تھی۔

ادھورے وعدے؟

ہاٹ لائن برائے مہاجرین اور تارکین وطن نے شفافیت کے فقدان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب کہ فوجی خدمات کے فوائد کی افواہیں گردش کر رہی ہیں، تنظیم ایسے کسی بھی معاملے کی تصدیق نہیں کر سکی ہے جس میں کیا گیا  وعدہ پورا کیا گیا ہو۔

اسرائیلی فوج میں اس نوعیت کی بھرتیوں کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ناقدین سمجھتے ہیں کہ جب سیاسی پناہ کا فیصلہ میرٹ کے بجائے کسی نوعیت کے لین دین کی بنیاد پر کیا جائے گا پناہ گزینوں کی حق تلفی ہوگی۔

مزید پڑھیں:اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا لبنان کے خلاف جنگ کا عندیہ

انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک ریسرچ سے وابستہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی پروفیسر اور ریسرچ ڈائریکٹر جولیا گرگنن کا موقف ہے کہ پناہ کا درجہ ظلم و ستم کی وجہ سے دیا گیا ہے، نہ کہ کسی معاہدے کے حصے کے طور پر، یہی وجہ ہے کہ فوج میں بھرتی ہونا کبھی بھی پناہ گزین کا درجہ حاصل کرنے کے لیے شرط نہیں ہونا چاہیے۔

کچھ لوگوں نے دلیل دی ہے کہ اسرائیل ان کمزور لوگوں کا استحصال کر رہا ہے جو حفاظت کی تلاش میں اپنے وطن سے بھاگ گئے تھے، شیرا ایبو کے مطابق ان کے پاس جو تھوڑی سی معلومات ہیں وہ خطرناک ہیں۔ ’حقوق کو فرائض سے پہلے آنا چاہیے، بغیر حقوق کے افراد کو بھرتی کرنا اور ان سے یہ توقع رکھنا خطرناک ہے کہ وہ مبہم وعدوں کی بنیاد پر اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں۔‘

مزید پڑھیں: نیتن یاہو ہمارے بچوں کو دفن کر رہا ہے، تل ابیب اسرائیلی مظاہرین کے نعروں سے گونج اٹھا

اسرائیلی دفاعی اسٹیبلشمنٹ کا موقف ہے کہ اس کے اقدامات قانون کے مطابق ہیں، یہ رپورٹس اسرائیلی فوجیوں کی کمی کے پس منظر میں سامنے آئی ہیں، جب حماس کے خلاف اسرائیلی جنگ کو ایک سال مکمل ہونے والا ہے، اسرائیلی سپریم کورٹ نے جون میں فیصلہ سنایا تھا کہ تاریخی طور پر بھرتی سے مستثنیٰ قدامت پسند یہودی بھی اب ناگزیر فوجی خدمت کے پابند ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp