بلوچستان پاکستان کا وہ جھومر ہے جس پر کوئی میلی نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، احسن اقبال

جمعرات 19 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بلوچستان کے سردار میر ہزار خان مری کی زندگی پر تحریر کردہ کتاب کی تقریب رونمائی جمعرات کو اسلام آباد کے پاک چائنا سینٹر میں ہوئی، جس میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی، کتاب کے مصنف عمار مسعود اور گورنر بلوچستان شیخ جعفر مندوخیل سمیت دیگر اہم سیاسی و سماجی شخصات نے شرکت کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مصنف عمار مسعود نے کہاکہ بلوچستان کے نوجوان کنفیوژن کا شکار ہیں۔ انہیں بہت سی طاقتیں گمراہ کرنے پر لگی ہوئی ہیں۔ ’میں ان سے التماس کرتا ہوں وہ اس کتاب کی داستان کو پڑھیں، اور وطن سے محبت کریں، بلوچ نوجوانوں کے ہاتھ میں بارود نہیں بلکہ کتاب کی ضرورت ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں چترال کی زبانوں پر لکھی گئی کتاب کی تقریب رونمائی

انہوں نے کہاکہ میر ہزار خان کی زندگی کا درس آج کے بلوچ نوجوان تک پہنچانے کے لیے حکومت کا بھی یہ فرض ہے کہ یہ کتاب ہر گھر تک پہنچے اور اس لازوال داستان پر فلم بھی بنے اور اس پر ترانے بھی لکھے جائیں۔

انہوں نے گفتگو کے اختتام پر کہاکہ سلیم کوثر کا ایک شعر اس کتاب کی عکاسی کرتا ہے۔ ’کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انہیں غور سے، جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے‘۔

بلوچستان پاکستان کا حصہ نہ ہوتا تو وہی حال ہوتا جو آج افغانستان کا ہے، احسن اقبال

مہمان خصوصی وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کتاب رونمائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میر ہزار خان مری کی زندگی اس چیز کی عکاسی کرتی ہے کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو مختلف سازشی پاکستان کے خلاف اکساتے ہیں۔ بلوچستان اگر پاکستان کا حصہ نہ ہوتا تو بلوچستان کا وہی حال ہوتا جو آج افغانستان کا ہے۔ کیونکہ محل وقوع کے لحاظ سے بلوچستان بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مگر دشمنوں کی ہزار سازشوں کے بوجود بھی وہ بار بار ناکام ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ آج کے نوجوان کو ان سازشوں سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے، یہ کتاب اس حوالے سے نوجوانوں میں آگاہی پیدا کر سکتی ہے، کہ کس طرح دشمن کو ناکام بنانا ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ بلوچستان پاکستان کا وہ جھومر ہے جس پر کوئی میلی نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ ہماری جانب سے جو کوتاہیاں ہوئیں اس کا احساس ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ن لیگ نے بلوچستان میں ترقیاتی عمل کو بھی فروغ دیا۔

احسن اقبال نے کہاکہ بلوچستان کے نوجوانوں کو اسکالرشپ دیں تاکہ اسلام آباد کی یونیورسٹیوں میں آکر تعلیم حاصل کرسکیں، تربت، گوادر اور خضدار میں یونیورسٹیوں کی بنیاد رکھ چکا ہوں۔

کوشش کریں گے کہ ہم یہ کتاب یونیورسٹی اور کالجز کے علاوہ لائبریریز میں بھی پہنچائیں، وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یہ پاکستان کی اتنی خوبصورت اسٹوری ہے، جسے عمار مسعود نے یقیناً خوبصورت انداز میں لکھا ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ میر ہزار خان مری ایک تاریخ تھے، آج وہ امر ہو چکے ہیں۔ ہم پوری کوشش کریں گے کہ ہم یہ کتاب یونیورسٹی اور کالجز کے علاوہ لائبریریز میں بھی پہنچائیں۔ ’یہ کتاب نہ صرف بچوں کو پڑھنے کا موقع دیں گے بلکہ اس کی تحقیق کا مطالعہ کرنے کے لیے بھی کہیں گے‘۔

سرفراز بگٹی نے کہاکہ بلوچستان کی زیادہ تر یک طرفہ اسٹوری بتائی جاتی ہے، اور بہت سے سینیئر لوگ ہی یہ کہتے رہے کہ بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق زبردستی تھا۔ یہ سب من گھڑت کہانیاں ہیں۔ اور اس طرح کی من گھڑت کہانیوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

ضروری ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے آئندہ غلطیوں سے اجتناب کیا جائے، گورنر جعفر مندوخیل

گورنر بلوچستان شیخ جعفر مندوخیل نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج ہم میر ہزار خان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے غلطیاں ہوتی رہی ہیں، جس میں خود بلوچستان کے لوگوں کا بھی کردار ہے، لیکن ضروری ہے کہ آئندہ غلطیوں سے اجتناب کیا جائے۔

انہوں نے کہاکہ مفاہمت کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا جبکہ مزاحمت سے ہر چیز تباہ ہوجاتی ہے، ہم سب اس چیز کو قبول کرتے ہیں کہ آج کے بعد مفاہمت کا راستہ اختیار کریں گے۔

یہ ثبوت پر مبنی وہ کہانی ہے جو ظاہری آنکھ نہیں دیکھ پائی، ریسرچر خالد فرید

کتاب کے ریسرچر خالد فرید نے تقریب کے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ ثبوت پر مبنی وہ کہانی ہے جو ظاہری آنکھ نہیں دیکھ پائی۔ اس کتاب کو تمام تر حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھا گیا ہے۔

’میں ان کی وفات سے پہلے کئی بار ملاقاتیں بھی کر چکا تھا، اس کتاب میں ان کی 40 سال کی کہانی ہے، اس شخص کی جو 40 برس تک اکیلا لڑتا رہا، اس محب وطن کی کہانی جسے علم تھا کہ بلوچستان کو کس طرح سے اندرونی اور بیرونی سازشیں نقصان پہنچا رہی ہیں‘۔

تقریب میں دیگر اہم شخصیات کا کہنا تھا کہ اس کتاب نے بلوچستان کے تمام مسائل کو ایک کوزے میں بند کردیا ہے۔ جس سے دنیا کو بلوچستان میں پائی جانے والی باغیانہ سوچ کی وجہ جاننے میں آسانی ہوگی۔

کچھ شرکا کا کہنا تھا کہ یہ سچ ہے کہ بلوچستان پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ایک ہی طبقہ فکر پر لکھا گیا ہے، کیا پاکستان نے میر ہزار خان کا مزاحمت سے مفاہت تک کا سفر جاننے کی کوشش کی؟ اس کتاب کا ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دوسری طرف کی کہانی بھی عوام میں عام ہو۔

’میر ہزار خان عام چن ماہی کی کہانی ہے جو ایک زمانے میں ریاست کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور پھر غیر ملکی طاقتیں کیسے سامنے آتی ہیں، اس کتاب میں یہی سب بیان کیا گیا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں بلوچ نوجوانوں کو سوچے سمجھے ایجنڈے کے تحت ریاست سے دور کیا جارہا ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان

واضح رہے کہ یہ کتاب بلوچستان کے سیاسی منظر نامے میں لکھی ایک بائیو گرافی ہے جس میں میر ہزار خان مری کی زندگی کے تغیر و تبدل کے حوالے سے بلوچستان کی سیاست اور موجودہ حالات کی کشیدگی کا ذکر ملتا ہے۔ یہ حقائق پر مبنی وہ کتاب ہے، جو ایک سکے کے دونوں رخوں کی حقیقت بیان کرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp