امریکی حکام کا خیال ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی گروپ حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ صدر جوبائیڈن کے جنوری میں عہدہ چھوڑنے سے قبل ممکن نہیں ہے۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے وائٹ ہاؤس، محکمہ خارجہ اور پینٹاگون کے اعلیٰ سطحی اہلکاروں کا نام لیے بغیر یہ رپورٹ کیا ہے اور کہا ہے کہ مذکورہ اداروں نے فوری طور پر اس حوالے سے تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ جنگ بندی مذاکرات: اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدہ نہ ہوسکا
ان حکام نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ یہ معاہدہ طے پا جائے، ایسا یقین سے نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس معاہدے میں 2 اہم رکاوٹیں ہیں جن میں ہر اسرائیلی یرغمالی کے بدلے رہا کیے جانے والے فلسطینی قیدیوں کی تعداد اور اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ہے۔
ادھر، پینٹاگون کی ترجمان سبرینا سنگھ نے وال اسٹرٹ جرنل کی رپورٹ شائع ہونے سے قبل جمعرات کو ایک پریس بریفنگ میں دعویٰ کیا، ’ہم نہیں سمجھتے کہ (جنگ بندی سے متعلق) معاہدہ ٹوٹ رہا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کو پیجرز دھماکوں کا انجام بھگتنا پڑے گا، حسن نصر اللہ
رپورٹ کے مطابق، امریکی حکام سرکاری سطح پر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی قریباً 2 ہفتے قبل کہا تھا کہ جنگ بندی کے معاہدے پر 90 فیصد اتفاق ہوگیا ہے، تاہم اس حوالے سے تاحال کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔
امریکا، قطر اور مصر کئی ماہ سے جنگ بندی کی کوششیں کررہے ہیں لیکن یہ ثالث اسرائیل اور حماس کو حتمی معاہدے تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے 31 مئی کو 3 مراحل پر مشتمل جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اسرائیل نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
دوسری جانب، اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ لبنان بھر میں پیجرز اور واکی ٹاکیز دھماکوں کے بعد معاہدے کے امکانات کو سخت دھچکا لگا ہے اور جنگ بندی کے بجائے ایک مکمل جنگ کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔