چین کی جیل میں قید ایک امریکی پادری کو 18 سال بعد رہا کردیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا کیس تھا جسے بائیڈن انتظامیہ نے چین کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کی کوششوں میں اولین ترجیح قرار دیا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پادری کو غلط الزامات کی بنیاد پر تقریباً 2 دہائیوں تک قید رکھا گیا۔ 68 سالہ پادری ڈیوڈ لین کو 2006 میں چین میں ایک غیرقانونی گرجا گھر کی تعمیر میں معاونت کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ بعدازاں، انہیں فراڈ کے الزامات پر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا چین سے کیوں الجھنا نہیں چاہتا؟
امریکی نان پرافٹ انسانی حقوق کے ادارے ’چائنا ایڈ‘ کے مطابق، ڈیوڈ لین 90ء کی دہائی میں چین گئے تھے، جہاں انہوں نے 1999ء تک انجیل کی تبلیغ کی، انہیں 2006ء میں ایک انڈرگراؤنڈ ’ہاؤس چرچ‘ تعمیر کرنے کے جرم میں حراست میں لیا گیا تھا۔
امریکا کا کہنا ہے کہ چین کے سیکیورٹی اداروں نے ڈیوڈ لین کے علاوہ 2 اور امریکیوں کو غلط الزامات کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا جن میں بزنس مین کائی لی اور مارک سویڈن شامل ہیں جن پر جاسوسی اور منشیات سے متعلقہ الزامات عائد کیے گئے تھے، یہ دونوں افراد تاحال چینی جیلوں میں قید ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کملا ہیرس یا ٹرمپ، امریکا کی چین پالیسی نہیں بدلے گی
امریکی محکمہ خارجہ نے ڈیوڈ لین کی رہائی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے ان 3 امریکیوں کی رہائی کے لیے گزشتہ چند برسوں کے دوران چین کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو بہتر کرنے کوشش کی ہے۔
صدر جوبائیڈن نے چینی صدر شی جنپنگ سے گزشتہ برس نومبر میں سان فرانسسکو میں ملاقات کے دوران اور رواں برس ٹیلیفون پر امریکی شہریوں کی رہائی کے حوالے سے بات کی تھی۔ جبکہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بھی اپنے دوروں میں چینی حکام سے اس معاملے پر بات چیت کی تھی۔
بیرون ملک قید امریکی شہریوں کے لیے شروع کی گئی مہم کے نمائندوں نے امریکی حکومت سے چین میں قید دیگر 2 امریکی شہریوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور صدر جوبائیڈن پر زور دیا ہے کہ وہ مذکورہ قیدیوں کی رہائی کے لیے اپنی کوششیں مزید تیز کریں۔