چیئرمین تحریک انصاف بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے ملک کا عدالتی نظام سست ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست زدہ بھی ہوگیا ہے، عدالت نے آمر پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دیا تھا، مجودہ آئینی ترمیم پر اب سے نہیں پچھلے کئی سالوں سے چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت کام ہورہا ہے۔
نجی ٹی وی پروگرام سے گفتگو کے دوران چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سے سوال کیا گیا کہ اب ترمیم کب آرہی ہے، پچھلے ترمیمی مسودے سے کون کون سی ترامیم ڈراپ اور کون سی نئی ترامیم شامل کی جارہی ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: سیاستدانوں کو اپنی لڑائیاں سیاست کے دائرے میں رہ کر لڑنا ہوں گی، بلاول بھٹو زرداری
اس سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جہاں تک آئینی ترمیم کا سوال ہے تو میں یہ کہوں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جس کام کے لیے ہم پارلیمان میں بھیجے گئے ہیں، وہ کام اس طریقے سے نہیں ہوپارہا، کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ عدالتی اصلاحات ضروری ہیں۔
بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ میرے نانا قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا کیس میں ہمیں 45 سال انتظار کرنا پڑا، پیپلز پارٹی کے ایسے بہت سے کیسز ہیں مگر عام شہری بھی عدالتی نظام سے متاثر ہیں، عدالتی نظام سست تو چلتا ہی ہے مگر یہ نظام سیاست زدہ بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملکی سیاست میں بلاول بھٹو کی بڑھتی اہمیت، آصف زرداری کیا سوچ رہے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم دو تہائی اکثریت سے پاس ہوئی تھی مگر اس ترمیم میں عدالت کے حوالے سے ترمیم نہیں مانی گئی تھی، آئین میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ آئینی ترمیم پر 10 سال بات کی جائے اور پھر پیش کی جائے، پارلیمان کا فیصلہ ججز کو ماننا چاہیے تھا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ایک جج نے آمر پرویز مشرف کو اختیار دلوایا تھا کہ آمر صاحب آپ کے پاس اختیار ہے کہ آپ آئین میں ترمیم لے کر آئیں، 2006 میں آئین میں بہت جلدی جلدی ترامیم کی گئی تھیں، چارٹر آف ڈیموکریسی کے 2 نکات پر کام اب سے نہیں پچھلے کئی سالوں سے ہورہا ہے۔
دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے لیے کسی قانون سازی میں حکومت کا ساتھ دیا جاسکتا ہے
کیا سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب اے پی ایف پر حملہ ہوا تو 23 وین آئینی ترمیم لائی گئی تھی، اب بھی حکومت کی تجویز تھی ابھی سیکیورٹی کی جو صورتحال ہے تو ہم کوئی ایسی ترمیم لے کر آئیں جس سے ہم دہشتگردوں کے خلاف مقدمات کے لیے ملٹری کورٹس بنا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ اس وقت ملک میں جو دہشتگردی کی صورتحال ہے، دن بدن دہشتگردی بڑھتی جارہی ہے، پیپلزپارٹی تو ہمیشہ ملٹری کورٹس کی مخالفت کرتی آرہی ہے، ہم نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ اس ترمیمی بل کے ساتھ ملٹری کورٹس کی تجویز نہ لے کر آئے، مگر حکومت پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں پارلیمان کو بریفنگ دے کہ اس وقت ملک کے حالات کیا ہیں، پھر پارلیمان سے مشاورت کے بعد حکومت اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ملک میں سیاسی دہشتگردی بھی بڑھ گئی ہے، ماضی میں پیپلز پارٹی نے دہشتگردوں کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے ملٹری کورٹس کے قیام کی حمایت کی تھی، اب بھی صرف دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے لیے کسی قانون سازی میں حکومت کا ساتھ دیا جاسکتا ہے۔