سپریم کورٹ آف پاکستان نے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار کو آئین کے تابع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قوانین کا ماضی سے اطلاق ہونا آئین سے مشروط ہے، صرف آئین شکنی سے متعلق فوجداری معاملے پر قانون سازی ماضی سے ہو سکتی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے ٹیکس مقدمہ میں 41 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا ہے، جو سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔
یہ بھی پڑھیں آصف زرداری نے پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے جے یو آئی سے تعاون مانگ لیا، مولانا فضل الرحمان کا انکار
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں پارلیمان پر یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ آرٹیکل 9 سے 28 میں دیے گئے حقوق ختم نہیں کیے جاسکتے جبکہ آرٹیکل 12 کے مطابق فوجداری معاملات میں قوانین کا ماضی سے اطلاق نہیں ہوسکتا۔
فیصلے کے مطابق سول حقوق کو ماضی سے لاگو کرنے کا پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کو اختیار نہیں، کیونکہ ایسا کرنے سے فریقین کے حقوق متاثر ہوسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ شہری موجودہ قوانین کے مطابق ہی اپنے امور انجام دیتے ہیں کیونکہ انہیں اسی کا معلوم ہوتا ہے۔ ایسے میں مستقبل میں بننے والے قانون کا ماضی کے اقدامات پر اطلاق کیسے ممکن ہے؟
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالتوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر قوانین کا ماضی سے اطلاق ہوگا تو پھر کئی پرانے مقدمات دوبارہ کھل سکتے ہیں۔ جہاں قانون کی دو تشریحات ممکن ہوں تو وہی کرنی چاہیے جو لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ماضی میں عدالت یہ قرار دے چکے ہے کہ صرف انہی قوانین کا ماضی سے اطلاق ممکن ہے جو پہلے سے دیے گئے حقوق کو ختم نہ کریں۔
یہ بھی پڑھیں پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی متنازعہ ہو رہی ہے، چیف جسٹس
عدالت عظمیٰ نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور نجی کمپنیوں کی اپیلوں کو جزوی طور پر منظور کرلیا۔