جنرل باجوہ نے معذرت کے لیے بلایا مگر میں نے انکار کر دیا: ابصار عالم

جمعرات 6 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے انکشاف کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) قمر جاوید باجوہ نے ان کے بیٹے پر تشدد کے واقعے پر معذرت کرنے کے لیے انہیں گھر بلایا مگر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اللہ سب سے بڑا منصف ہے میں نہیں چاہتا کہ وہ مجھ سے معافی مانگیں۔

وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں سابق چیئرمین پیمرا نے بتایا کہ ان کے بیٹے کے ساتھ ہونے والے سلوک کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد جنرل باجوہ نے ان سے رابطہ کیا اور گھر بلوایا۔

’ایک ڈیڑھ ماہ قبل مجھ سے جنرل باجوہ نے لاہور میں مقیم ایک صحافی دوست کے ذریعے رابطہ کیا تھا کہ مجھے آپ کے بیٹے کا پتا چلا مجھے تو پہلے کچھ پتا نہیں تھا کہ کیا ہوا تو میں سوری فِیل کر رہا ہوں۔ آپ میرے گھر آئیں میں معافی مانگنا چاہتا ہوں‘۔

یاد رہے کہ چند ہفتے قبل ابصار عالم نے بتایا تھا کہ ان کے بیٹے کو راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں جنرل باجوہ کے بیٹے کی آمد کے موقع پر سیکیورٹی اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس سے وہ شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے تھے اور سالوں ان کا علاج کروانا پڑا۔

ابصار عالم نے بتایا کہ جنرل باجوہ کے پیغام کے جواب میں انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں معافی لینے ان کے گھر نہیں جانا چاہتا۔ میرا تو ایسا کوئی شوق نہیں ہے نہ میں چاہتا ہوں کہ وہ مجھ سے معافی مانگیں جو ہونا تھا وہ ہو گیا، وقت گزر گیا‘۔

’اللہ سب سے بڑا منصف ہے‘

ابصار عالم کے مطابق انہیں جنرل باجوہ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ’چونکہ وہ خود میرے گھر نہیں آ سکتے کچھ مسائل کی وجہ سے تو ان کے کزن گھمن صاحب  ان کی طرف سے میرے گھر آجائیں گے‘۔ تاہم میں نے کہا میری طرف سے ان کے ساتھ کوئی میل ملاپ نہیں۔ اللہ سب سے بڑا منصف ہے۔

’عمران خان نے بھی ملنے کا پیغام بھیجا‘

ابصار عالم نے بتایا کہ جنرل باجوہ کے علاوہ انہیں عمران خان سے بھی ملاقات کا پیغام ملا مگر وہ نہیں گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے پیغام پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے ذریعے ملا جو کہ ایک مشترکہ دوست کے پاس ملے تھے۔

فواد چوہدری صاحب نے کہا کہ ’آپ زمان پارک تشریف لائیں عمران خان صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں، میں ملوانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ میں سوچوں گا مگر میرا دل نہیں کیا کہ جاؤں کیونکہ میں منافقت نہیں کر سکتا‘۔

ابصار عالم سے پوچھا گیا کہ آج کل عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی ہے جس کے وہ خود بھی خلاف ہیں تو پھر بھی وہ کیوں خان صاحب سے ملنا نہیں چاہتے تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں ان کی بندوق کا کارتوس نہیں ہوں، نہ کسی اور کی بندوق کا کارتوس ہوں کہ جس کو اپنی مرضی کے وقت پر کوئی چلا لے اور پھر سائیڈ پر کر دے۔ میرا ایک ایمان اور نظریہ ہے جو اس وطن کے ساتھ ہے‘۔

’میرے خلاف پروپیگینڈا سن کر والدہ کی یاداشت چلی گئی‘

ابصار عالم نے بتایا کہ ان کے خلاف ٹی وی چینل پر پروپیگینڈا دیکھ دیکھ کر ان کی والدہ کی یاداشت چلی گئی۔

وہ جھوٹ دیکھ دیکھ کر روتی تھیں کہ میرا بیٹا ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ میرے بیٹے کے خلاف  کیا بات کر رہے ہیں۔ ڈائمینشیا کی مریض بن گئی ہیں۔ آج تک ان کی ذہنی سطح وہیں فریز ہو گئی ہے جہاں پر انہوں نے میرے خلاف پروپیگینڈا دیکھا۔ اب وہ کسی کو نہیں پہچانتیں سوائے میرے۔ یہ بھی دیکھیں کہ ان کے ساتھ کتنی زیادتی ہے۔

’ بچوں کے ساتھ یونیورسٹی میں بھی bullying ہوئی ‘

ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی چینل پر جھوٹے پروپیگینڈا کی وجہ سے ان کے بچوں کے ساتھ یونیورسٹی میں بھی bullying ہوئی۔ میں ان جرنیلوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں اور ان ججز کو بھی۔ میڈیا ٹائیکون کو بھی کہ میں قیامت والے دن  اللہ سے انصاف لوں گا‘۔

’صحافی کو سرکاری نوکری کرنی چاہیے؟‘

ابصار عالم سے پوچھا گیا کہ انہوں نے صحافت چھوڑ کر چیئرمین پیمرا کا عہدہ سنبھالا اس پر کچھ لوگ تنقید کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ میرے ناقدین جو کہتے ہیں کہ صحافی کو سرکاری نوکری نہیں کرنی چاہیے میں ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ وہ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ میرے ناقد ہیں۔

ایک پوری لمبی لسٹ ہے سو ڈیڑھ سو صحافیوں کی جو حکومت میں گئے میڈیا میں واپس آئے پھر حکومت میں گئے پھر میڈیا میں آئے، مگر ان پر تنقید نہیں ہوتی مگر مجھ پر صرف اس لیے ہوتی کہ میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے خلاف ہوں۔

’میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوں‘

ابصار عالم کا کہنا تھا کہ میں نے خود سے فیصلہ کیا کہ پبلک سیکٹر میں جاؤں کیا یہ گناہ ہے۔ میڈیا میں 25 سال کام کرکے میں میڈیا سے متعلق پالیسی ادارے میں کیوں کام نہیں کر سکتا؟  کس اخلاقیات میں لکھا ہے کس قانون میں ہے؟ صرف مجھ پر تنقید کیوں ہوتی ہے کہ میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوں میں سیاست میں کاروبار میں، صحافت میں تجارت میں وکالت میں ان کے کردار پر تنقید کرتا ہوں۔

’جو مشکلات جھیلیں وہ زندگی کے تمغے ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا میری محبت ہے میں اس میں ناکام نہیں ہونا چاہتا تھا اس لیے میں نے سوچا میڈیا چھوڑ کر پالیسی لیول پر کوئی کام کروں اور میرا ضمیر مطمئن ہے کہ میں نے پالیسی لیول پر اچھا کام کیا۔ جو میں نے اور میرے خاندان نے مشکلات جھیلیں وہ میری زندگی کے تمغے ہیں۔

’سازش کا حصہ نہ بننے پر عدالتی فیصلہ خلاف آگیا‘

اس سوال پر کہ ان کے پیمرا کے دور میں کچھ اینکرز ان کے خلاف کیوں ہو گئے، ابصار عالم کا کہنا تھا کہ چونکہ اس وقت وہ چند جرنیلوں اور ججوں کی سازش کا حصہ نہیں بنے اس لیے ان کے خلاف عدالتی فیصلہ آگیا۔

’ ججوں اور جرنیلوں نے سازش کی‘

ابصار عالم کے مطابق اس وقت کچھ ججوں اور جرنیلوں نے اس ملک کے خلاف سازش کی۔ پاکستان کو چین سے دور کرنے کی سازش ہے جس میں بین الاقوامی طاقتیں ملوث ہیں۔ (اس سازش کے تحت) امریکا کے کیمپ میں پاکستان کو رکھا جانا تھا چین کے کیمپ میں نہیں جانے دینا تھا، سی پیک کو ناکام کرنا تھا۔ پاکستان کے جج، جرنیل اور میڈیا کے لوگ اس میں ملوث تھے۔

اسی سازش کے تحت اس وقت کی حکومت کے خلاف ایک پورا منصوبہ لانچ کیا گیا اور  جو جو شخص اس سازش کے خلاف تھا اسے نشانہ بنایا گیا اور جو میڈیا ہاوسز کالے دھن کو سفید کرنے میں ملوث تھے وہ اس سازش کا حصہ بنے کیونکہ چور چور کا ساتھی ہوتا ہے۔

’میرے خلاف باقاعدہ نشانہ بنا کر پروپیگینڈا مہم چلائی‘

ان ٹی وی چینلز میں میرے خلاف باقاعدہ نشانہ بنا کر پروپیگینڈا مہم چلائی۔ اور میں ان کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گا۔ یہ جتنے دہرے چہرے مذہب کے لگائے ہوئے ہیں اللہ کے سامنے ان کی منافقت اور عیاری عیاں ہے۔ میں قیامت والے دن ان کو گلے سے پکڑ کر نہ گھسیٹوں تو میرا نام ابصار عالم نہیں۔

’ عدالتی نظام پر ذرا اعتماد نہیں‘

ابصار عالم کا کہنا ہے کہ اس ملک کے عدلیہ کے نظام پر انہیں ذرا اعتماد نہیں۔ میں مر بھی جاؤں تو اپنے بچوں کو وصیت کر کے جاؤں گا کہ اس نظام سے انصاف مت لینا، اللہ پر چھوڑ دینا اور اللہ پر چھوڑا ہے میں نے تو پھر کیا ہوا۔ آپ کو آج بتا رہا ہوں دو ججز ہیں دو جرنیل ہیں دو میڈیا ہاوسز کے لوگ ہیں، میں نے ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑا ہے۔ میں ان کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔  انہوں نے جتنے جھوٹ بولے، جتنا پروپیگینڈا کیا صرف اس وجہ سے کہ میں ان کی جیب میں نہیں تھا میں پاکستان کے خلاف سازش کا حصہ نہیں تھا۔ آپ دیکھ لیں کہ تب سے لے کر آج ملک کی حالت کیا ہے؟

’باجوہ ڈاکٹرائن‘

انہوں نے باجوہ ڈاکٹرائن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ چاہے عمران خان وزیراعظم تھے یا شاہد خاقان عباسی تھے یا نواز شریف ان سب میں کامن فیکٹر باجوہ ڈاکٹرائن تھا۔

’جنرل فیض نے دھمکیاں دیں‘

ابصار عالم کا کہنا تھا کہ بطور چیئرمین پیمرا ان پر دباؤ ڈالا جاتا تھا کہ پسندیدہ افراد اور چینل کو کچھ نہ کہیں اور ناپسندیدہ چینل کے خلاف ایکشن لیں۔ مجھے کہا جاتا تھا کہ یہ یہ بندہ گالیاں دے رہا ہے فیک نیوز دے رہا ہے یہ چینل جھوٹی خبریں دے رہا ہے ان کو کچھ نہ کہیں۔ کوئی کفر کے فتوے بانٹ رہا ہے، کوئی غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹ رہا ہے ان کو کچھ نہ کہیں۔ اور یہ یہ چینل صحیح کام کر رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کریں، کیبل پر ان کے نمبر تبدیل کر دیں، فلاں فلاں اینکر پر پابندی لگا دیں۔

ان سے پوچھا گیا کہ یہ سب دباؤ ان پر کس کی جانب سے تھا، تو ان کا کہنا تھا کہ جنرل فیض حمید نے کہا اور بھی جرنیلوں نے کہا مگر میں نے کبھی ہاں میں جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا آپ نے جو کرنا ہے کر لیں پھر انہوں نے کر لیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے ذریعے مجھے نکلوا دیا۔

’ناجائز دباؤکا ریکارڈ موجود ہے‘

ابصار عالم نے بتایا کہ ان کے پاس کال ریکارڈنگز ہیں اور ناجائز دباؤ کا ریکارڈ موجود ہے۔

ان کے مطابق مَیں نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل باجوہ اور چیف جسٹس ثاقب نثار کو خط لکھا لیکن کوئی کچھ نہیں کر سکا پھر میں نے پریس کانفرنس کی جس میں دھمکی آمیز کال کا ثبوت دیا گیا تھا۔

جب گولی چلی؟

اپنے اوپر قاتلانہ حملے کا احوال بتاتے ہوئے ابصار عالم کا کہنا تھا کہ انہیں ذرا خوف محسوس نہیں ہوا۔ جب گولی لگی تو میں واک کرتے ہوئے نصرت فتح علی خان کی غزل سن رہا تھا ’دوستی کا بھروسہ نہیں دشمنوں سے گلہ کیا‘۔ اسی وقت دشمن نے فائر کر دیا۔ میں اس کی طرف مڑا ہوں۔ مجھے سمجھ لگی کہ گولی لگی ہے۔ میں نے کہا اوئے تم نے مجھے گولی ماری ہے، اس نے پستول میری طرف کیا ہوا تھا لیکن میرے بولنے پر وہ گھبرا گیا اور بھاگ گیا کیوں کہ پارک میں اور لوگ بھی تھے۔

’  مجھے لگ رہا تھا شاید مر جاؤں گا‘

اس وقت ریکارڑ کی گئی ویڈیو پر ان کا کہنا تھا کہ مجھے ہسپتال لیجانے والے بچے ڈر رہے تھے گولی لگی ہے ہم پر الزام نہ لگ جائے وہ خود بخود ہو گیا، مجھے لگ رہا تھا شاید مر جاؤں ، تکلیف بہت تھی، انہوں نے ویڈیو بنانی شروع کر دی۔ ساتھ ہی کہنا شروع کر دیا کہ حوصلہ کریں اس کے ساتھ میرے ذہن میں آیا کہ بول دوں کہ جنہوں نے مجھے گولی مروائی ہے ان کے لیے پیغام ہے میں ڈرنے والا نہیں ہوں۔

’میں اس وقت لیز پر ہوں‘

ابصار عالم کا کہنا تھا کہ گولی کے واقعے کے بعد  اللہ نے بے پروائی دے دی ہے اس کے بعد میں اس وقت لیز پر ہوں، میں نے دنیا میں جو کرنا تھا کر لیا۔

انہوں نے جذباتی انداز میں بتایا کہ  ’میں نے زندگی کی ڈور اللہ کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ اس کی رضا میں راضی ہوں وہ جیسے رکھے جس حال میں رکھے اس کا شکر ادا کرتے تھک جاتا ہوں، جتنا اس نے مجھے دیا ہے۔ اس ملک اس وطن نے مجھے جو کچھ دیا ہے  اسی لیے مجھے اتنا دکھ ہے کہ اس وطن کے ساتھ یہ لوگ کرتے کیا ہیں۔ اور میں نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ میں مر جاؤں گ،ا میں سچ بولنا بند نہیں کروں گا۔ میری کٹمنٹ اس وطن کے ساتھ ہے اس دھرتی کے ساتھ ہے کسی میڈیا ٹائیکون کے ساتھ نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp