’لیاقت نہرو معاہدہ‘ میں کب کیا ہوا؟

ہفتہ 8 اپریل 2023
author image

عقیل عباس جعفری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قیامِ پاکستان کے صرف ڈھائی سال بعد 1950ء کے اوائل میں مغربی بنگال میں کلکتہ اور اس کے مضافاتی علاقوں میں شدید نوعیت کے مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے، جس کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کی اکثریت مغربی بنگال سے مشرقی بنگال جانے پر مجبور ہوگئی۔ دوسری جانب مشرقی بنگال سے بھی بہت سے ہندو مغربی بنگال منتقل ہونے لگے۔

8 فروری 1950ء کو کلکتہ میں فرقہ وارانہ فسادات کا آغاز ہوا۔ دوسری جانب ڈھاکا اور آسام میں بھی فسادات پھوٹ پڑے لیکن ہر مقام پر بہت قلیل مدت ہی میں حالات پر قابو پالیا گیا۔ اِکا دُکا واقعات کے علاوہ 20 فروری تک فرقہ وارانہ امن بحال کردیا گیا۔

اسی زمانے میں مغربی بنگال کے اخبارات اور بعض ہندوستانی قائدین نے کھلم کھلا پاکستان کے خلاف جنگ کا مطالبہ کیا۔ اس بے چینی کے باعث اپریل تک مغربی بنگال، آسام، تری پورہ سے 10 لاکھ سے زیادہ مہاجرین مشرقی بنگال پہنچے اور اسی طرح ہندوؤں کی ایک قابلِ ذکر تعداد بھی مشرقی بنگال سے مغربی بنگال منتقل ہوگئی۔

جنوری 1950ء میں بھارتی وزیرِاعظم پنڈت نہرو یہ تجویز پیش کرچکے تھے کہ دونوں حکومتوں کو مشترکہ طور پر یہ اعلان کردینا چاہیے کہ ہم باہمی اختلافات کے تصفیے کے لیے باہم جنگ نہیں کریں گے، چنانچہ اس اعلان کے تناظر میں وزیرِاعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خان نے اہم ترین مسائل طے کرنے کے لیے کچھ ٹھوس تجاویز پیش کیں۔

لیاقت علی خان اور جواہر لال نہرو دونوں اس بات کے قائل تھے کہ بنگال کی سرحد پر انسانوں کے کثیر انخلا کو روکا جائے اور اقلیتوں کے دلوں میں پھر اعتماد پیدا کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے یہ ضروری تھا کہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کسی ایک جگہ بیٹھ کر مشترکہ طور پر تبادلہ خیالات کریں اور نزاعی مسائل کو طے کریں۔ دونوں رہنما چاہتے تھے کہ اقلیتوں کے بارے میں کوئی ایسا مؤثر لائحہ عمل اختیار کیا جائے جو ان کے لیے تسلی آمیز ہو۔ مسلمان، بھارت میں اور غیر مسلم، پاکستان میں اطمینان سے رہ سکیں۔

 

لیاقت علی خان اور پنڈت نہرو

لیاقت علی خان نے پنڈت نہرو کو کراچی آنے کی دعوت دی لیکن پنڈت جی نے چند مجبوریاں ظاہر کیں اور لیاقت علی خان سے کہا کہ اگر ممکن ہو تو آپ ہی نئی دہلی تشریف لے آئیں۔ لیاقت علی خان نے یہ دعوت منظور کرلی اور 28 مارچ 1950ء کو مجلس دستور ساز میں اعلان کردیا کہ میں نے نئی دہلی جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

2 اپریل 1950ء کو لیاقت علی خان دہلی پہنچے اور اسی دن دونوں وزرائے اعظم کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا۔ اس سے قبل پاکستان کے سیکرٹری جنرل چوہدری محمد علی اور بھارت کے امورِ خارجہ کے سیکرٹری گرجا شنکر باجپائی ان مذاکرات کا لائحہ عمل طے کرچکے تھے اور بنیادی نکات پر اتفاق ہوچکا تھا۔

پاکستان کی طرف سے گفتگو کے آغاز ہی میں یہ بات واضح کردی گئی تھی کہ پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بھارت جو بھی تجویز پیش کرے گا وہ بلا چوں چرا منظور کرلی جائے گی بشرطیکہ بھارت میں بھی مسلم اقلیتوں کے تحفظ کے لیے انہی تجاویز کو اختیار کیا جائے۔ اس وقت دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوچکے تھے اور دونوں ملکوں کی سرحدوں پر جنگ کے خوفناک بادل منڈلا رہے تھے لیکن لیاقت علی خان اور جواہر لال نہرو نے اعلیٰ تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے اس خطرے کا خاتمہ کردیا۔

8 اپریل 1950ء کو دونوں کے مابین ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس میں دونوں ملکوں نے اپنے یہاں رہنے والے اقلیتی فرقہ کے تحفظ کی ضمانت دی اور ان کے مساوی حقوق کو تسلیم کیا۔ اس معاہدے سے مغربی اور مشرقی بنگال میں امن بحال ہوگیا۔ اس معاہدے کو وزارتِ خارجہ کی دستاویز کے مطابق ’نہرو لیاقت معاہدہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہی معاہدہ ’معاہدہ دہلی‘ بھی کہلاتا ہے۔

 

لیاقت علی خان اور پنڈت نہرو معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے

اس معاہدہ کی تفصیلات حسب ذیل ہیں:

(الف) حکومتِ ہند اور حکومتِ پاکستان سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرتی ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ:

i۔ ان کی مملکت میں اقلیتوں کو ان کے مذاہب سے قطع نظر شہری کے یکساں حقوق حاصل رہیں گے۔

ii۔ ان اقلیتوں کی جان، مال، جائیداد، ثقافت، ذاتی وقار کی حفاظت و سلامتی کے ساتھ پورے ملک میں نقل و حرکت کی آزادی، پیشہ و روزگار کی آزادی، تحریر و تقریر کی آزادی، عبادت کی آزادی کی ضمانت دی جائے گی بشرط یہ کہ ان سے اخلاق و قانون کی خلاف ورزی نہ ہو۔

iii۔ اقلیتی فرقوں کے ارکان کو بھی ملک کے دیگر اکثریتی طبقات کے ساتھ امورِ مملکت میں شمولیت کے مساوی مواقع فراہم ہوں گے، وہ سیاسی عہدہ سنبھال سکیں گے، سول اور آرمڈ فورسز میں بھرتی ہوکر ملک کی خدمت کر سکیں گے۔

iv۔ دونوں ہی حکومتیں یہ اعلان کرتی ہیں کہ اقلیتوں کے یہ حقوق بنیادی حقوق میں شامل ہیں اور ان کے مؤثر نفاذ کا عہد کرتی ہیں۔

وزیرِاعظم ہند نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دستورِ ہند میں یہ اقلیتی تحفظات کی دفعات پہلے ہی سے شامل ہیں اور اقلیتوں کے حقوق کی دستور ہند میں ضمانت دی گئی ہے۔ وزیرِاعظم پاکستان نے بتایا کہ اسی طرح کی تجاویز پاکستانی دستور ساز اسمبلی کے لیے قرارداد مقاصد میں بھی منظور کی گئی ہیں۔

v۔ دونوں حکومتوں کی یہ پالیسی ہے کہ ان جمہوری حقوق سے مستفیض ہونے کا موقع بلا امتیاز تمام شہریوں کو یقینی طور پر ملنا چاہیے۔

vi۔ دونوں حکومتوں کی خواہش ہے کہ وہ اس بات پر زور دیں کہ اقلیتی طبقات کی وفاداریاں ان ممالک کے ساتھ ہی ہوں گی جن کے وہ شہری ہیں اور انہیں اپنی شکایات کے حل کے لیے اپنے ہی ممالک کی حکومتوں کی طرف دیکھنا ہوگا۔

(ب) مشرقی بنگال، مغربی بنگال، آسام، تری پورہ کے مہاجرین کے بارے میں جہاں حال ہی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے، دونوں ممالک کی حکومتیں اس بات پر اتفاق کرتی ہیں کہ:

i۔ ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے دوران مکمل تحفظ اور نقل و حرکت کی آزادی فراہم کی جانی چاہیے۔

ii۔ مہاجرین کو یہ آزادی ملنی چاہیے کہ جس قدر اپنا مال و اسباب نکال سکیں، نکال لیں۔ منقولہ جائیداد میں ذاتی زیورات بھی شامل ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ نقد رقم فی بالغ مہاجر 150 روپے اور فی نابالغ مہاجر 75 روپے رکھنے کی اجازت ہوگی۔

iii ۔ اگر کوئی مہاجر یہ نقدی اور زیورات خود نہیں لے جانا چاہتا ہے تو اسے بینک میں جمع کرسکتا ہے۔

iv۔ کسٹم حکام انہیں پریشان نہیں کریں گے۔ اس کی ضمانت کے لیے کسٹم چوکیوں پر دوسرے ملک کے افسر بطور رابطہ کار تعینات رہیں گے۔

v۔ مہاجرین کی غیر منقولہ جائیداد میں مالکانہ حقوق اور کرایہ دارانہ حقوق کی بھی حفاظت ہوگی۔ اگر اس کی غیر حاضری میں کوئی اس کی جائیداد پر قبضہ کرلے تو یہ جائیداد واپس دلائی جائے گی بشرط یہ کہ مہاجر 13 دسمبر 1950ء سے پہلے واپس آجائے۔ اگر مہاجر زرعی زمین کا مالک یا کرایہ دار ہے تو اس کی بھی جائیداد اس تاریخ تک واپس آجانے پر اسے دلوائی جائے گی۔

کسی غیر معمولی کیس میں اگر حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کسی مہاجر کو اس کی جائیداد واپس نہیں کی جائے گی تو پھر یہ معاملہ مشورہ کے لیے متعلقہ اقلیتی کمیشن کے سپرد کیا جانا چاہیے۔ اگر مقرر تاریخ تک لوٹ آنے والے کسی مہاجر کی جائیداد لوٹانا ممکن نہ ہو تو پھر حکومت اس کی آباد کاری کرے گی۔

اس معاہدے کے باب سوم میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مشرقی بنگال، مغربی بنگال، آسام، تریپورہ کے حالات سدھارنے اور معمول پر لانے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔ مجرمانہ سرگرمیوں میں شامل افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ جہاں جہاں ضروری ہو وہاں خصوصی عدالتیں بھی قائم کی جائیں۔ لوٹی ہوئی املاک و جائداد ہر ممکن واپس لی جائیں۔ مغویہ عورتوں کو برآمد کرنے کے لیے فوری طور پر ایسی ایجنسی قائم کی جائے جن میں اقلیتی نمائندے بھی ہوں۔ جبری تبدیلی مذہب کو قبول نہیں کیا جائے اور ایسی حرکتوں میں ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے۔

فسادات کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے جج کی نگرانی میں کمیشن آف انکوائری قائم کیا جائے اور اقلیت کے بھی ایسے افراد اس میں شامل ہوں جن سے انہیں حوصلہ ملے۔ یہ کمیشن ’آئندہ ہنگاموں کو کیسے روکا جائے‘ کی بھی سفارشات پیش کرے۔

افواہیں اور غلط خبر پھیلانے والے افراد اور اداروں کی سخت نگرانی کی جائے اور ان پر ایکشن لیا جائے۔

اپنے ملک میں پڑوسی ملک کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈا کی اجازت نہیں دی جائے یا دونوں کے درمیان جنگ بھڑکانے یا ان کی جغرافیائی سلامتی کے خلاف پروپیگنڈا پر ایکشن لیا جائے۔

اس معاہدے کے ذریعے ایسے اقدامات پر بھی غور ہوا کہ دونوں ممالک کا ماحول نارمل بنایا جائے تاکہ مہاجرین کی اپنے اپنے وطن واپسی ممکن ہوسکے۔اس کے لیے دونوں ممالک کے ایک ایک وزیر کو متاثرہ حلقوں میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مشرقی بنگال اور مغربی بنگال کی کابینہ میں فوراً اقلیتی طبقہ کے ایک ایک وزیر کو شامل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

اس معاہدے کی تجاویز پر عمل کے لیے مشرقی بنگال، مغربی بنگال اور آسام میں ایک ایک اقلیتی کمیشن قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا، جس کا چیئرمین ایک صوبائی وزیر اور اراکین میں اقلیتی فرقے کے افراد شامل ہوں۔ پاکستان اور بھارت کے 2 وزیر کمیشن کی کارروائیوں میں شریک رہیں گے۔ اقلیتی کمیشن ضلع سطح کے اقلیتی بورڈز سے رابطہ میں رہے گا اور اس معاہدہ پر عمل درآمد کا اقلیتی کمیشن جائزہ لے گا۔

اس طرح پنڈت جواہر لال نہرو اور لیاقت علی خان نے اقلیتی طبقات کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے اور حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کی، جو تاریخ کا اہم حصہ ہے۔

پاکستانی عوام نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا اور دستور ساز اسمبلی نے بھی اس معاہدے کی منظوری دے دی۔ اس معاہدے کے دستخط ہونے کے فوراً ہی بعد دونوں ملکوں میں کھنچاؤ ختم ہوتا گیا۔ اس معاہدے کے بعد ایک اور معاہدہ طے پایا جس کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور آمد و رفت شروع ہوگئی۔ جب حالات معمول پر آنے لگے تو اعتماد بھی بحال ہوگیا۔ رفتہ رفتہ صوبے میں مسلمان مہاجرین کی آمد اور یہاں سے ہندوؤں کا انخلا کم ہونے لگا بلکہ لوگ اپنے گھروں کو واپس ہونے لگے۔ چنانچہ 15 جون 1951ء تک مشرقی بنگال کی طویل سرحد کے صرف 2 مقامات یعنی درسنا اور بیناپول کے راستوں سے ان ہندوؤں کی بڑی تعداد جو ہنگاموں کے بعد مغربی بنگال چلے گئے تھے واپس آگئی۔

چند ہی روز بعد بھارت میں اس معاہدے پر تنقید شروع ہوگئی۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل اور شیام پرشاد مکھر جی نے اس معاہدے کو کچھ زیادہ پسند نہ کیا۔ سردار پٹیل کو تو نہرو نے منا لیا مگر شیام پرشاد مکھرجی نے نہرو کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا اور 1951ء میں بھارتی جن سنگھ پارٹی کی بنیاد رکھی جو بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بن گئی۔

ہندوستان کے اخبارات بھی پاکستانی عوام اور رہنمائوں کے خلاف زہر اگلنے لگے۔ اس حرکت کے خلاف کئی مرتبہ صدائے احتجاج بلند کی گئی مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ جولائی 1951ء میں ہندوستان نے اپنی افواج کی ایک بڑی تعداد مغربی پاکستان کی سرحد پر جمع کردی جس سے حملے کا اندیشہ پیدا ہوا اور معاہدے کا تمام متن ایک حرف غلط کی طرح مٹ گیا۔

27 جولائی 1951ء کو لیاقت علی خان کو کراچی میں ایک جلسے کا اہتمام کرنا پڑا جس میں انہوں نے بھارت کے وزیرِاعظم جواہر لال نہرو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم تلوار اور توپ سے نہیں لڑتے، ہم تو خدا کے فضل کے ساتھ لڑتے ہیں، ان شااللہ جب تک دنیا باقی ہے اس وقت تک پاکستان بھی باقی رہے گا، آج سے ہمارا نشان یہ ہے‘۔ یہ کہہ کر لیاقت علی خان نے اپنی مٹھی بند کی اور مکہ تان کر دکھایا، عوام نے وزیراعظم کے دیے ہوئے اس نشان کا استقبال پاکستان زندہ باد اور قائدِ ملت زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے کیا۔

 

کراچی کی تقریر کے بعد لیاقت علی خان کی جانب سے لہرایا گیا مشہور مکا

بھارتی مؤرخین اب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر 1950ء میں ہونے والے ’لیاقت نہرو معاہدہ‘ پر دونوں ممالک خصوصاً بھارت خلوصِ دل سے عمل درآمد کر لیتا تو شاید اس خطے کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

انتظار تھا الیکشن کمیشن کامیابی کا اعلان کرے گا، پٹیشن ہی خارج کردی، سربراہ پی کے نیپ

امن کے لیے دہشتگردی کے بیانیے کو شکست دینا ہوگی، بلاول بھٹو کا دورہ کوئٹہ کے دوران اظہار خیال

جج کی بیٹی کے ہاتھوں قتل ہونے والے شکیل تنولی کے اہل خانہ کا انصاف کا مطالبہ

شعبان سے 2 ہفتے قبل اغوا ہونے والے 7 افراد بازیاب نہ ہوسکے، اغواکاروں کی دی گئی ڈیڈ لائن بھی ختم

حکومت خود گرنا چاہتی ہے، 12 جولائی کو علامتی دھرنا نہیں ہوگا: حافظ نعیم الرحمان

ویڈیو

جج کی بیٹی کے ہاتھوں قتل ہونے والے شکیل تنولی کے اہل خانہ کا انصاف کا مطالبہ

مصنوعی آبشار اور سوئمنگ پول نے مظفر آباد کے باسیوں کو اپنا دیوانہ بنالیا

ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلز پارٹی کی نورا کشتی میں کراچی کے عوام کو کیا ملے گا؟

کالم / تجزیہ

4 جولائی: جب نواز شریف نے پاکستان کو ایک تباہ کن جنگ سے بچا لیا

نواز شریف! بولتے کیوں نہیں میرے حق میں؟

شملہ معاہدے کی ‘خفیہ شق’ اور دائروں کا سفر