افغانستان میں خواتین عملے پر پابندی کیخلاف اقوام متحدہ کا شدید ردعمل

جمعرات 6 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اقوام متحدہ کے سربراہ نے طالبان کی جانب سے تنظیم کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندی کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ خواتین کارکنان افغانستان میں اقوام متحدہ کی انسانی امداد کی کارروائیوں کے لیے اہم ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے افغانستان کے حکمرانوں سے فوری طور پر اس حکم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ امتیازی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل  کے مطابق خواتین عملہ ملک میں اقوام متحدہ کی کارروائیوں کے لیے ضروری تھا۔

اقوام متحدہ، افغانستان میں 23 ملین افراد تک امداد پہنچانے کے لیے کام کر رہا ہے، جو شدید اقتصادی اور انسانی بحران سے دوچار ہیں۔ خواتین کارکنان زمینی امدادی کارروائیوں میں خاص طور پر دوسری ضرورت مند خواتین کی شناخت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک بیان میں کہا کہ خواتین عملے کے ارکان اقوام متحدہ کے آپریشنز بشمول جان بچانے والی امداد کی فراہمی کے لیے ضروری ہیں۔

اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار نے طالبان کی جانب سے پابندی کی نفاذ پر ردعمل میں کہا ہے کہ اس فیصلے کے نفاذ سے افغان عوام کو نقصان پہنچے گا، جن میں سے لاکھوں اس امداد کے محتاج ہیں۔

انہوں نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے تمام فیصلوں کو تبدیل کریں جو خواتین اور لڑکیوں کے کام، تعلیم اور نقل و حرکت کی آزادی پر پابندی لگاتے ہیں۔

قبل ازیں، اقوام متحدہ نے مرد اور خواتین پر مشتمل اپنے افغان عملے  سے کہا کہ وہ کام پر رپورٹ نہ کریں۔

واضح رہے کہ طالبان نے منگل کو مشرقی صوبہ ننگرہار میں مقامی خواتین کو اقوام متحدہ کی تنصیبات میں کام پر جانے سے روک دیا تھا۔

اقوام متحدہ کے عملے پر پابندی سے ملک میں صحت کے پروگرام کس طرح متاثر ہوں گے یہ واضح نہیں ہے۔

اس پابندی کو افغانستان میں اقوام متحدہ کی کارروائیوں کے مستقبل علاوہ اقوام متحدہ اور ایسی طالبان حکومت کے درمیان تعلقات کے سب سے اہم امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جسے دنیا میں کہیں بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔

طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے نوعمر لڑکیوں اور خواتین کو اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے روک دیا گیا ہے۔ خواتین کو ایسے لباس پہننے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے جس سے صرف ان کی آنکھیں ظاہر ہوں، اور اگر وہ 72 کلومیٹر (48 میل) سے زیادہ سفر کر رہی ہوں تو ان کے ساتھ ایک مرد رشتہ دار بھی ہونا چاہیے۔

یاد رہے کہ گزشتہ نومبر میں خواتین کے پارکوں، جم اور سوئمنگ پولز پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی، یوں انہیں حاصل سادہ ترین آزادی بھی چھین لی گئی تھی۔

طالبان نے خواتین کی تعلیم کے حامیوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا ہے۔ گزشتہ ماہ خواتین کی تعلیم کے لیے ایک ممتاز افغان مہم جو مطیع اللہ ویسا کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر گرفتار کیا گیا تھا۔

فروری میں پروفیسر اسماعیل مشعل، جو طالبان حکومت کی طرف سے خواتین کی تعلیم پر پابندی کے سخت ناقد تھے، کو بھی مفت کتابیں دیتے ہوئے کابل میں گرفتار کیا گیا۔

واضح رہے کہ طالبان نے 2021ء میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے خواتین کی آزادیوں پر تیزی سے پابندیاں عائد کی ہیں۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp