قومی احتساب بیورو (نیب) نے پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) انکوائری کی مد میں اربوں روپے ریکوری کا دعویٰ کیا ہے۔
نیب اعلامیے کے مطابق نیب خیبرپختونخوا نے بی آرٹی پشاور کرپشن اسکینڈل میں168.5 ارب روپے کی بڑی ریکوری کی ہے، نیب نے عالمی ثالثی عدالت سے کنٹریکٹرز کا 31.5 ارب روپے کا دعویٰ بھی خارج کروا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور میٹرو بس منصوبے میں ہوشربا کرپشن: FIA سے تحقیقات کا فیصلہ
کنٹریکٹ میں شامل 6 منصوبے غلط طریقے سے چند مخصوص کمپنیوں کودیے گئے
اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ بی آر ٹی پشاور منصوبے کی تحقیقات کا آغاز 2018 میں ہوا تھا، تحقیقات میں بی آرٹی کے کنٹریکٹ کی غیرقانونی ایوارڈنگ اورسرکاری فنڈزمیں خُرد بُرد کے الزامات سامنے آئے۔
نیب کی حالیہ قیادت نے تحقیقات کو تیز کیا تو108.5 ارب روپے کی بچت ہوئی، تحقیقات میں ثابت ہوا کہ کنٹریکٹ میں شامل 6 منصوبے غلط طریقے سے چند مخصوص کمپنیوں کودیے گئے۔
کمپنیوں نے بغیر کام کیے تقریبا ایک ارب روپے حاصل کیے
کمپنیوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور تقریباً ایک ارب روپے بغیرکام کے حاصل کیے، تحقیات کے دوران نیب نے 400 سے زائد بینک اکاؤنٹس کا معائنہ کیا جس سے کرپشن کے ناقابل تردید شواہد ملے، تحقیقات سے معلوم ہوا کہ کنٹریکٹرز نے پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو جعلی گارنٹیاں جمع کرائی تھیں۔
ایس ای سی پی نے جعلی آڈٹ رپورٹ کی تصدیق کی
یہ بھی پڑھیں: پشاور میں ایک بار پھر میٹرو ٹرین کا اعلان، کیا یہ منصوبہ ممکن بھی ہے؟
پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کے دعوے کے مطابق 86 ارب روپے کا ہرجانہ بھی طلب کیا گیا، کنٹریکٹرز نے نہ تو کام 6 ماہ کی مقررہ مدت میں مکمل کیا، نہ ہی غیرملکی کمپنیوں نے پاکستان آکرمنصوبے پرکام کیا،کنٹریکٹرزنے جعلی آڈٹ رپورٹ جمع کرائی، سیکیورٹی ایکسچینج کمشین آف پاکستان نے (ایس ای سی پی) نے اس بوگس آڈٹ رپورٹ کی تصدیق بھی کی۔
غیر ملکی کمپنیوں کو شامل تفتیش کیا گیا
نیب نے سفارتخانوں کے ذریعے غیرملکی کمپنیوں کو شامل تفتیش کیا،کنٹریکٹرز نے سود کی ادائیگی کی بنیاد پر5 ارب کا دعویٰ بھی کیا، نیب تحقیقات کی وجہ سے پروجیکٹ کو اصلی لاگت پرمکمل کرواکر قومی خرانے کی 9 ارب کی بچت کی گئی۔
پشاور ہائیکورٹ نے تمام کیسز بند کردیے
نیب اعلامیے میں مزید انکشاف کیا گیا ہے نیب کی تحقیقات کی وجہ سے کنٹریکٹرزنے پی ڈی اے کے ساتھ عدالت سے باہرتصفیے کی درخواست کی، تصفیے کے نتیجے میں صرف 2.6 ارب روپے کی ادائیگی پرمعاہدہ طے پایا،اس معاہدے کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے تمام کیسز بند کردیے۔