سینیئر صحافی اور معروف شاعر اجمل سراج 19 ستمبر 2024 کو محض 56 برس کی عمر میں کراچی میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ صحافتی اور گھریلو ذمہ داریوں کے علاوہ ان کا اوڑھنا بچھونا شاعری تھا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’اور میں سوچتا رہ گیا‘ 2005 میں منظر عام پر آیا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن 2010 میں آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی نے شائع کیا تھا۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’الفراق‘ تھا۔ اپنے تیسرے شعری مجموعے کی تیاری میں تھے کہ پھیپھڑوں کے سرطان نے انہیں یہ مہلت ہی نہ دی۔
اور تو خیر کیا رہ گیا
ہاں مگر اک خلا رہ گیا
اس نے پوچھا تھا کیا حال ہے
اور میں سوچتا رہ گیا
مزید پڑھیں:سپمورن سنگھ کالرا سے گلزار تک
اجمل سراج نے 14 اگست 1968 کو کراچی میں آنکھ کھولی۔ جامعہ کراچی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور کافی عرصے تک روزنامہ جسارت کے ہفتہ وار جریدے (سنڈے میگزین) کے مدیر بھی رہے۔ کئی نامور شعرا کی موجودگی میں ان کے خود ساختہ اسلوب نے انہیں الگ شناخت اور شہرت عطا کی۔ چند اشعار دیکھیے:
وہ دن جب اس نے بنایا تھا خاک سے مجھ کو
مرا غرور بھی سب خاک میں ملا دیا تھا
نگاہ کے لیے نظارہ جہاں کم ہے
سو یہ کھلا کہ میری عمر، رائگاں کم ہے
لوگ جیتے ہیں کس طرح اجمل
ہم سے ہوتا نہیں گزارا بھی
ہاں کھینچ لوں گا وقت کی زنجیر پاؤں سے
اب کے بہار آئی تو ایسا کروں گا میں
’نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘
وہ رات نیند میں ڈوبی تھی ایک عمر کے بعد
سو یوں ہوا کہ مجھے نیند ہی نہیں آئی
مزید پڑھیں:کراہتے ہوئے انسانوں کی صدا ’جالب‘
جون ایلیا نے کہا تھا کہ:
اب نہیں ملیں گے ہم کوچۂ تمنا میں
کوچۂ تمنا میں اب نہیں ملیں گے ہم
کیا ہوئے صورت نگاراں خواب کے
خواب کے صورت نگاراں کیا ہوئے
اجمل سراج نے یوں رنگ جمایا اور داد پائی:
زندگی ہم سے چاہتی کیا ہے
چاہتی کیا ہے زندگی ہم سے
رہ گیا دل میں اک درد سا
دل میں اک درد سا رہ گیا
ٹھہر گیا ہے دل کا جانا
دل کا جانا ٹھہر گیا ہے
کون آتا ہے اس خرابے میں
اس خرابے میں کون آتا ہے
مزید پڑھیں:8 نومبر: یوم انور مسعود
سینیئر صحافی و شاعر اطہر نفیس کی ایک لازوال غزل ’وہ عِشق جو ہم سے رُوٹھ گیا‘ فریدہ خانم نے گا کر اَمر کردی۔ اس کی دلفریب دُھن موسیقار ماسٹر منظور نے بنائی تھی۔ اطہر نفیس 22 فروری 1933 علی گڑھ کے مضافاتی قصبے میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور 1953 سے طویل عرصہ تک روزنامہ ’جنگ‘ سے وابستہ رہے اور صنفِ غزل سے بھی شہرت پائی۔
اطہر نفیس کا پہلا شعری مجموعہ ’کلام‘ احمد ندیم قاسمی نے 1975 میں لاہور سے شائع کیا تھا۔ آپ 21 نومبر 1980 کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ شادی نہیں کی تھی، یوں غمِ تنہائی کی آگ ان کا بدن چاٹ گئی۔ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ عبیداللہ علیم ان کا تعارف یوں کراتے تھے ’ان سے ملیں! یہ اطہر بھی ہیں اور نفیس بھی۔ ان کا یہ شعر دیکھیے:
دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو
مزید پڑھیں:راحت اندوری عہدِ جدید کے حبیب جالب
اجمل سراج کا اصل نام سراج الدین اجمل تھا اور وہ زمانہ طالبعلمی سے ہی شعر کہہ رہے تھے اور شہر کے تمام مشاعروں کی جان تھے۔ ان کے قطعات بھی باقاعدگی سے اخبارات و رسائل میں چھپا کرتے تھے۔ ان کے ایک صاحبزادے عبدالرحمان مومن بھی شاعر ہیں۔
اجمل سراج نے شاعر خالد معین سے گفتگو میں بتایا تھا کہ لطف کی بات ہے کہ زندگی میں کچھ غزلیں ایسی بھی ہیں جو کسی لمحے میں ٹچ کر گئیں لیکن پتا چلا کہ یہ تو ہمارے کسی استاد کی زمین ہے، جیسے:
میں اپنے آپ سے بڑھ کر کسی کو کیوں چاہوں
مجھی پہ ختم ہے قصہ میری محبت کا
وہ بات مجھ سے کہو جس کو سننا چاہوں میں
ہوا کہ رخ پہ نہیں بادباں سماعت کا
میں اپنے عشق میں سچا ہوں اور کہتا ہوں
میری رگوں میں بہت زہر ہے رقابت کا
وہ وقت ہے کہ نکل جاؤں سیرِ دشت کو آج
حصار ٹوٹ رہا ہے تیری محبت کا
عجیب لمحہ ذکرِ وفا سے گزرا ہوں
کہ میری آنکھ میں آنسو نہ تھا ندامت کا
وہ آگ ہے کہ دہکنے لگا ہے سینہ عشق
جلال دید کے قابل ہے میری صورت کا
ہزار اس نے یہ چاہا کہ میں بکھر جاؤں
سو میں نے صبر کیا، صبر بھی قیامت کا
مزید پڑھیں:100 برس کے مشیر کاظمی
یہ اطہر نفیس صاحب کی غزل تھی۔ ہمارا لڑکپن تھا ڈرگئے اور دب گئے۔ میں نے کہا اجمل سراج جانے دے بھائی، دو شعر ہو گئے ہیں بس جانے دے:
دکھائی دیتے ہیں اسباب جابجا اجمل
مگر نہیں ہے کوئی بھی سبب حقیقت کا
پلک جھپکنے کی مہلت نہیں ملی اجمل
کہ در کھلا ہی رہا خواب میں بھی حیرت کا
یہ دونوں شعر دوستوں نے سنے ہوئے ہیں۔ میری کتاب ’اور میں سوچتا رہا‘ میں بھی چھپ چکے ہیں، لیکن مدتوں کچھ شعر ذہن میں کھٹکتے رہے اور یوں باقی شعر اب (مئی 2021) مکمل ہوئے ہیں جو اطہر نفیس صاحب کی خاکِ پا کو بھی نہیں پہنچے:
نہیں رہا کوئی رشتہ نظر سے حیرت کا
جب ایک روز ہوا سامنا حقیقت کا
خرید کر نہیں لایا کوئی یہاں خود کو
کسی کو بھی نہیں اندازہ اپنی قیمت کا
وہ غم نہیں جو میرے دل تلک نہیں پہنچا
مگر بھلا ہو میرے بھولنے کی عادت کا
جو آسمان سے آئے ہوئے ہیں ان کے لیے
زمین پر کوئی سامان کیا ہو راحت کا
جو آج شہرِ خموشاں دکھائی دیتا ہے
یہیں سے شور بھی اٹھے گا کل قیامت کا
مگر نہیں ہے یہاں کوئی آدمی اجمل
کوئی ملے تو پتا پوچھئے محبت کا
مزید پڑھیں:احمد فراز: صحرائے محبت کا مسافر
اجمل سراج نے کہا تھا کہ ’قریباً پچیس برس یہ غزل پنپتی رہی اور طویل مدت کے بعد صفحہ قرطاس پر نازل ہوئی۔‘ یقیناً یہ پُراسرار تخلیقی عمل کی حیرت انگیزمثال ہے۔
بدل جائیں گے یہ دن رات اجملؔ
کوئی نا مہرباں کب تک رہے گا