مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بلے کے نشان والے کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کر دیے جاتے تو ابہام پیدا ہی نہ ہوتا، لوگوں کے آئینی حقوق کا تحفظ عدالتی طریقہ کار سے زیادہ اہم ہے، یہ کہنا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی درخواست سپریم کورٹ کے سامنے موجود نہیں تھی درست بات نہیں۔
70 صفحات پر مشتمل جسٹس منصور علی شاہ کے تحریرکردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہےلیکن کمیشن فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مخصوص نشستوں سے متعلق وضاحتی فیصلہ، سپریم کورٹ کی الیکشن کمیشن کو سنگین وارننگ
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابی عذرداریوں کے حوالے سے بہت سے فیصلے کرتا ہے اس لیے وہ ایک نیم عدالتی فورم ہے، اگر کسی عدالت سے اس کا فیصلہ مسترد ہوتا ہے تو وہ بطور متاثرہ فریق اپیل دائر نہیں کر سکتا، لیکن اس معاملے میں الیکشن کمیشن بطور متاثرہ فریق عدالت کے سامنے اپنا مقدمہ لڑتا رہا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق انتخابی رول 94 آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 سے متصادم ہے، رول 94 کے تحت مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار سے متعلق ہے، انتخابی رولز الیکشن ایکٹ کے مطابق ہی بنائے جا سکتے ہیں، انتخابی رولز میں ایسی چیز شامل نہیں کی جا سکتی جو الیکشن ایکٹ میں موجود نہ ہو۔
c.a.333_2024_23092024 by Asadullah on Scribd
’رول 94 کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعت اسے تصور کیا جائے گا جس کے پاس انتخابی نشان ہو، رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51(6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے، انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دیا جانا الیکشن کمیشن کی طرف سے اضافی سزا ہے۔‘
فیصلے کے مطابق پشاور ہائیکورٹ کو پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے درخواست پر فیصلہ کرنے کے بجائے آئین کے آرٹیکل 218 اور الیکشن ایکٹ کی دفعات 4 اور 8 کے تحت اس معاملے کو واپس الیکشن کمیشن کے پاس بھیجنا چاہیے تھا۔
مزید پڑھیں: کیا مخصوص نشستوں سے متعلق بل کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا؟
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عوامی خواہش اور جمہوریت کے لیے شفاف انتخابات ضروری ہیں، پارلیمنٹ میں متنازعہ طور پر مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے نوٹیفیکیشن 6 مئی 2024 سے منسوخ کیے جاتے ہیں۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹیفائی کرے، عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کا اہم جز ہے، آئین عوام کو اپنا جمہوری راستہ بنانے کا اختیار دیتا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بلے کے نشان والے کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کرتی تو کنفیوژن پیدا ہی نہ ہوتی، الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکم نامہ میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کیے، عدالت اور الیکشن کمیشن کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ انتخابی شیڈول جاری ہو چکا ہے، واضح قانون کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے سے آئین کی کون کون سی دفعات متاثر ہوئیں؟
فیصلے کے مطابق سیاسی جماعت کے عہدیدار الیکشن ایکٹ کی شق 208 کے تحت منتخب ہوتے ہیں، ان کا سرٹیفیکیٹ الیکشن ایکٹ کی شق 209 کے تحت جمع کرایا جاتاہے، الیکشن کمیشن کے انتخابات منظور کرنے یا نہ کرنے تک نو منتخب عہدیداران پارٹی کے معاملات سنبھالتے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کی الیکشن کمیشن کی جانب سے نامنظوری پر پرانے عہدیدار بحال ہو جاتے ہیں، 14 ستمبر کا وضاحتی آرڈر الیکشن کمیشن کی درخواست پر جاری کیا گیا تھا، جسے اس فیصلے کا حصہ سمجھا جائے، وضاحت اپنے ہی فیصلے کی کرنا تھی اس لئے فریقین کو نوٹس جاری کرنا ضروری نہیں تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دو روز قبل رجسٹرار سے اس آرڈر پر جواب مانگا تھا۔
مزید پڑھیں: پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار آئین کے تابع ہے، سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
فیصلے کے مطابق آئین میں فراہم کردہ حقوق کو کم کرنے یا قدغن لگانے والے قوانین کا جائزہ تنگ نظری سے ہی لیا جا سکتا ہے، جمہوریت میں انفرادی یا اجتماعی حقوق میں کم سے کم مداخلت یقینی بنانی چاہیے، انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی سزا انتخابی نشان واپس لینے سے زیادہ کچھ نہیں، انتخابی نشان واپس لیے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ختم ہو گئے۔
اپنے 70 صفحات کے تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ کے 8 ججز نے 2 ساتھی ججوں کی جانب سے ان کے 12 جولائی کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دینے کے ریمارکس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججز کے منصب کے منافی ہے، زیادہ پریشان کن بات یہ ہےکہ دونوں جج اپنی رائے دیتےہوئےحدودسےتجاوز کرگئے، انہوں نے الیکشن کمیشن کو کہا کہ 8 ججوں کا اکثریتی فیصلہ نہ مانیں،
مزید پڑھیں:چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی ججز کی وضاحت پر اہم سوالات اٹھا دیے
تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہیں، الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، فیصلے میں الیکشن کمیشن کے مذکورہ فیصلہ کو آئین سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔
قبل ازیں 12 جولائی کے فیصلے پر اس حوالے سے کافی تنقید کی گئی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف جو کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست گزار ہی نہیں تھی اس کو ریلیف کیسے دیا جا سکتا ہے، لیکن تفصیلی فیصلہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے فریق بننے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: مخصوص نشستوں کا معاملہ، الیکشن کمیشن کی دوبارہ سپریم کورٹ جانے کی خبروں کی تردید
’عام معمول کے مطابق اس طرح کی درخواست پہلے دائر ہوتی ہے اور پہلے اس کے فریق بننے سے متعلق فیصلہ کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ کوئی عام نوعیت کا مقدمہ نہیں بلکہ آئین، بنیادی حقوق اور لوگوں کے اپنے حکمران منتخب کرنے کے حوالے سے ایک انتہائی اہم مقدمہ ہے، جو ان کے لیے قانون سازی کرتے اور ریاستی انتظام چلاتے ہیں۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی ہو، سنی اتحاد کونسل یا کوئی اور سیاسی جماعت، سپریم کورٹ کے لیے سب سے اہم کام آرٹیکل (2)17 اور 19 کے تحت لوگوں کے حق رائے دہی کا تحفظ کرنا ہے، اس لئے اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ سپریم کورٹ نے مروجہ قانونی طریقہ کار سے ہٹ کر پی ٹی آئی کی فریق بننے کی درخواست پر فیصلے سے قبل ہی اسے ریلیف دے دیا۔
مزید پڑھیں:بغیر مانگے مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی وویمن ونگ کی صدر کنول شوزب کی درخواست کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے فیصلے میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کون سی سیاسی جماعت کو کتنی مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں، ان نشستوں پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامزد کردہ افراد کا انفرادی حق نہیں ہوتا۔
مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ اردو زبان میں بھی جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ اردو ترجمہ کو کیس ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کیا جائے۔