ہمارا معاشرہ اور ملک اس وقت کن حالات کا شکار ہے اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے البتہ خیبرپختونخوا میں رہ کر یوں محسوس ہوگا جیسے مکمل انارکی ہو۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سرجن بتا رہے تھے کہ اس وقت ہمارے پاس ننانوے فیصد مریضوں کو اگر کسی سرجری کی ضرورت ہوتی ہے تو ان کو ڈپریشن کا مرض لازمی لاحق ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پیشے سے منسلک ڈاکٹر دوست جو ذہنی امراض کا علاج کرتے ہیں، وہ ڈاکٹر اس بات پر حیران ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں ذہنی بیماریوں کے مریضوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اس وقت خیبرپختونخوا کی دوائیوں کی مارکیٹ میں ذہنی سکون پہنچانے والی ادویات اکثر کم تعداد میں پائی جاتی ہیں کیونکہ لوگ ان دوائیوں کو ایسے خرید رہےہیں جیسے گھر کا راشن لیا جاتاہو۔ ایسے میں کوئی تو ہونا چاہیے تھا جو مداوا بنتا مگر بدقسمتی سے صوبائی حکومت کو بدترین ہی کہا جا سکتا ہے جو ان چیزوں پر اگر ایک طرف کنٹرول کی اہلیت نہیں رکھتی تو دوسری طرف یہ ان کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں۔ وزیراعلی صاحب فلمی ڈائیلاگز بول کر صرف انصافی دوستوں کو خوش رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دوسری طرف انصافی دوست وہ چیزیں نہیں دیکھ پارہے جو وزیراعلیٰ کو وکٹ کے دونوں طرف سے کھیلتا ہوا ثابت کررہی ہیں۔
صوبے میں تحریک انصاف کے پچھلے دور میں جو لوٹ مار شروع ہوئی تھی نئی شروعات بھی مبینہ گندم سکینڈل سے کی گئی تھیں جس میں ایک اندازے کے مطابق ایک ارب روپے سے زیادہ ہضم کیے گیے اور یہ سارا مال گھر کے بڑے کے کھاتے میں جمع ہوا۔ وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے جب خیبرپختونخوا کے لیے گندم پر پابندی عائد کی تو ہم جیسے بے خبر لوگوں نے اس پر شدید احتجاج کیا لیکن اب لگتا ہے کہ مریم نواز کو اندازہ تھا کہ یہاں کیا گل کھلایا جا رہا ہےتھا۔ مریم نواز کے حوالے سے یہ میرا اندازہ بھی ہو سکتا ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ ہمیں بڑی دیر سے پتہ چلا۔
سابق صوبائی وزیر شکیل خان کے اعترافات غیر معمولی ہیں اور پختونخوا کی سیاست پر نظر رکھنے والے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ شکیل خان کا کردار ایسا ہے کہ ان کی باتوں پر یقین کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ شکیل خان نے اعترافات سے پہلے کرپشن کے سارے نظام کے بارے میں عمران خان کو بھی بتایا تھا لیکن اس کا کوئی حل کیوں نکلتا؟۔ خان صاحب خود جب ملک کے وزیراعظم تھے تب ان کے وزیراعلی خیبرپختونخوا نے صوبے کو تاریخ ساز کرپشن میں جھونک دیا تھا لیکن خان صاحب نے کرسی چھن جانے کے بعد ہر کوتاہی کے لیے بس ایک ہی بات کہی کہ ان کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ کوئی پوچھے کہ آپ کو آخر کس بات کا پتہ تھا؟
پختونخوا کے لوگوں کی بدقسمتی کی فہرست طویل ہے۔ اس وقت مولانا فضل الرحمان صاحب کا شمار پاکستان کے ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو حکومتیں گرانے اور بنانے کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی موجودہ حکومت میں ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت سمیت تمام سٹیک ہولڈرز ان کے در پر حاضری دیتے رہتے ہیں لیکن آج تک ان کی اس سیاسی طاقت کا ان کے مضبوط حلقوں پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑا۔ مولانا صاحب کی یہ مہارت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ وہ تقریباً ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں لیکن انہوں نے یہ مہارت صرف اپنی ذات کے لیے استعمال کی ہے۔
خیبرپختونخوا کے سب سے پسماندہ علاقے ضلع لکی مروت، ضلع ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان وغیرہ مولانا صاحب کے مضبوط سیاسی گڑھ رہےہیں جہاں سے اکثر ان کی جماعت نشستیں جیتتی رہی ہے لیکن بدلے میں مولانا صاحب کی جماعت نے ان علاقوں کو کیا دیا، جواب زیادہ مشکل نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا کے یہ وہ حلقے ہیں جہاں تعلیم تو چھوڑیں آج تک صاف پانی کی سہولت بھی لوگوں کو نہیں مل سکی۔
اسی طرح قوم پرست جماعتوں کی بیخ کنی کے لیے کئی سازشیں ہوئیں، بطورِ خاص عوامی نیشنل پارٹی کو صوبے کی سیاست سے ہٹانے کے لیے ہر طرح کے پینترے استعمال ہوئے لیکن اگر ہم پچھلی صوبائی حکومتوں سے ان کا موازنہ کریں گے تو ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت کے اگر ایک ہی کام پر نظر ڈالیں گے تو پاکستان بننے سے لے کر آج تک کے تمام صوبائی حکومتوں پر بھاری پڑتا ہے، اور وہ ہے صوبے میں نئی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے قیام کی منظوری۔ ذاتی طور پر عوامی نیشنل پارٹی کی سیاست سے اختلاف کرتا آیا ہوں لیکن وقت اور حالات نے سکھا دیا ہے کہ اپنوں کو کم از کم اس بات کا ادراک رہتا ہے کہ ان کے گھر کے بنیادی مسائل کا حل کیا ہے اور پشتونوں کا بنیادی مسئلہ بھی تعلیم سے دوری اور علمی سہولیات کی ناپیدگی ہی ہے۔
بدقسمتی سے خیبرپختونخوا کے تعلیمی اداروں کے تعلیمی ماحول کو خراب کرنے کے لیے خصوصی ماحول پیدا کیا گیا جو یقیناً کامیاب رہا لیکن اگر یہ ادارے بس موجود ہی رہیں اور کبھی اصلاح کی اجازت مل جائےوقت کے ساتھ صوبے کے عوام کا مستقبل بھی سنور سکتا ہے۔ ویسے اس وقت حالات یہ ہیں کہ صوبے میں تعلیمی ادارے بدحالی اور مالی بحران کا شکار ہیں۔ گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہیں اور وائیس چانسلر کو یونیورسٹی کی بربادی کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے اور بجائے اس کے کہ کوئی اچھا منتظم لایا جائے اسی وائس چانسلر کو یونیورسٹی آف لکی مروت کا اضافہ عہدہ بھی دے دیا گیا۔ پچھلے دنوں صوبے کی سب سے بڑی پشاور یونیورسٹی پر نامعلوم افراد کا دعویٰ ثابت کرتا ہے کہ یہاں علم کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی ہورہی ہے۔ اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال پریشان کن ہے اور ہر کوئی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بناتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ خیبرپختونخوا کا بس اللہ ہی حافظ ہو۔