خیبر پختونخوا کے ضلع اپر دیر کے بالائی علاقوں میں تیار ہونے والا خالص دودھ کا پنیر مقامی طور پر تو مشہور ہے ہی لیکن اب یہ اپنے منفرد ذائقے اور غذائی اہمیت کے باعث ملک کے دیگر حصوں میں بھی مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ یہ پنیرکئی گھنٹوں کی محنت کے بعد تیار ہوتا ہے اور اسے مارکیٹ تک لانا بھی کوئی آسان کام نہیں۔
دیر کے سیاحتی مقام زخنہ کے محمد یار بابا بھی پنیر تیار کرتے ہیں۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ مال مویشی پالنے والے افراد گرمیوں کے دوران شہروں سے اوپر پہاڑوں پر واقع عارضی رہائش گاہوں ’بانڈہ جات‘ میں منتقل ہو جاتے ہیں جہاں مال مویشی چرانے اور ان کے دودھ سے مختلف پروڈکٹس بنانے کے علاوہ ان کا کوئی اور کام نہیں ہوتا۔ وہ افراد ہر سال جون سے اکتوبر تک دودھ سے خالص لسی، دہی، پنیر اور مھتر سمیت اہم اور ذائقہ دار سوغاتیں بنا کر دیر بازار میں فروخت کرتے ہیں۔
محمد یار کا کہنا تھا کہ لسی، مھتر اور دہی بنانا آسان ہوتا ہے لیکن پنیر کے لیے منوں کے حساب سے دودھ جمع کیا جاتا ہے اور اس کی تیاری کے لیے کم از کم 6 گھنٹوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دیر کے جنگلات سے ملنے والا قدرتی مشروم اتنا مہنگا کیوں فروخت ہوتا ہے؟
اپر دیر میں پنیر خواتین اور مرد مل کر بناتے ہیں۔ ایک کلو پنیر کی تیاری میں 5 سے 6 کلو دودھ استعمال ہوتا ہے۔ تیاری کے لیے دودھ کو پہلے خوب ابالتے ہیں اور جب یہ بالکل گاڑھا ہو جاتا ہے تو پھر اسے 2 سے 3 افراد چھانتے ہیں جو خاصا وقت طلب عمل ہے۔
محمد یار بابا کے مطابق پہاڑی بانڈہ جات اور شہروں میں پائے جانے والے پنیر میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ پہاڑوں میں تیار کیا گیا پنیر اس لیے زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ اس کا ذائقہ نہ صرف بیحد عمدہ ہوتا ہے بلکہ یہ اپنے خالص ہونے کے سبب صحت بخش بھی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ زخنہ کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی پنیر بنتا ہے اور یہ بانڈہ جات میں رہنے والے لوگوں کی آمدن کا واحد ذریعہ ہے جو دیر شہر میں 1100 روپے فی کلو فروخت کرتے ہیں۔
پنیر کی خریداری کے لیے مقابلہ ہوتا ہے
دیر شہر میں پنیر، مھتر اور دہی کے سب سے ڈیلر اسحاق کا کہنا تھا کہ پہاڑی بانڈہ جات سے روزانہ کی بنیاد پر 100 سے 150 کلوگرام پنیر لایا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اکثر اوقات یہ پنیر پہنچنے سے پہلے ہی آرڈر پر بِک جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: لوئر دیر کی 130 سالہ قدیم مسجد جو آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے
انہوں نے کہا کہ اکثر تاجر ایک دوسرے سے پہلے پنیر حاصل کرنے کے لیے خود بالائی علاقوں کے پہاڑوں کا پیدل سفر کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پنیر خرید کر لا سکیں۔
محمد اسحاق کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے ہی سے گوالوں کے ساتھ طے کیا ہوتا ہے جو خود ہی روزانہ سینکڑوں کلو پنیر ان کی دکان پر پہنچا دیتے ہیں۔
محمد اسحاق مقامی سطح پر پنیر فروخت کرنے کے علاوہ اسے پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کی مختلف مارکیٹوں میں بھی آرڈر پر بھیجتے ہیں۔
سیاحوں کو پنیر بہت پسند ہے
موسم گرما میں ملک بھر سے بڑی تعداد میں سیاح اپر دیر آتے ہیں جو پنیر کو بہت پسند کرتے ہیں اور یہاں کھانے کے علاوہ کئی کلو اپنے ساتھ لے کر بھی جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: دیر زیریں ضلع کی وادی ’پنجوکرہ‘ اور صدیوں پرانی تہذیب
کراچی سے آئے ہوئے سیاح خاکسار کا کہنا تھا کہ انہوں نے دیر کی پنیر کے بارے میں بہت سنا ہوا تھا اور اب خوشی قسمتی سے خود اپنی انکھوں سے دیکھ بھی لیا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے اور دوستوں کے لیے بھی پنیر خریدا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں پنیر 1200 روپے فی کلو کے حساب سے ملا ہے۔
اسی طرح بہاولپور سے آئے سیاحوں نے بتایا کہ ان کے ہاں بھی اس کا طرح کی ڈیری پروڈکٹ بنتی ہے لیکن دیر کی پنیر کا ذائقہ اپنی مثال آپ ہے۔