صوبہ خیبر پختونخوا کے دیر زیریں ضلع کی وادی پنجوکرہ کی پہاڑیوں پر ابر آلود موسم کے ساتھ یہ بستی صدیوں پرانی تہذیب کی کہانی کو ظاہر کرتی ہے۔
سیاح اور فطرت سے محبت کرنے والے لوگ اس علاقے کی پہاڑی خوبصورتی اور گندھارا تہذیب کے آثار قدیمہ کے خزانوں کو تلاش کرنے کے علاوہ گلاب کی خوشبو اور دیگرموسمی پھولوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔
بھرپور آثار قدیمہ کے مقامات کے ساتھ قدرتی حسن کا امتزاج سیاحوں کے لیے اس وقت مزید دلچسپ ہو جاتا ہے جب دیر چکدرہ میوزیم ان کے سامنے قدیم زمانے کی کہانیاں کھولتا ہے۔ دیر کے لوگ کئی دہائیوں کی قدیم زندگی کے بعد جدیدیت کو اپنا رہے ہیں جس کے باعث انفراسٹرکچر، صحت، تعلیم اور سیاحت کی سہولیات ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔
آج مقامی لوگوں کے پاس اپنے آباؤ اجداد سے کہیں بہتر رسائی، تعلیم اور صحت کی سہولتیں ہیں جو زندگی کی بنیادی سہولیات حاصل کرنے کے لیے میلوں پیدل سفر کرتے تھے۔
دیر کو تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے: میوزیم انچارج محب گل
دیر چکدرہ میوزیم کے انچارج محب گل نے میڈیا کو بتایا کہ دیر کو تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے کیونکہ یہ پشاور، سوات، باجوڑ کے ساتھ ساتھ گندھارا تہذیب کا مرکز تھا اور مغرب کی طرف افغانستان میں ہڈان اور بامیان تک اور مشرق کی طرف پنجاب پاکستان میں ٹیکسلا ویلی تک پھیلا ہوا علاقہ ہے اس علاقے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔
محب گل کا کہنا تھا کہ تیمرگرہ اور دیگر مقامات پر 18 ویں سے 6 ویں صدی قبل مسیح کے درمیان آریاؤں کی قبروں کی کھدائی سے ثبوت ملتا ہے آریائیوں کے بعد بخامنشی تھے جنہیں بعد میں 327 قبل مسیح میں سکندر نے مقامی آبادی کی سخت مزاحمت کے بعد بے دخل کر دیا تھا۔
محب گل نے وضاحت کی کہ گندھارا تہذیب نے اپنی جڑیں قائم کیں جیسا کہ بدھا سٹوپا اور خانقاہوں کی یادگار باقیات سے ظاہر ہوتا ہے، جو دیر کے عجائب گھر میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیںاسی طرح یوسف زئی پٹھان یہاں 5 ویں صدی عیسوی میں آباد ہوئے تھے اور ملازی قبیلے کے اخوند لیاس پائندہ خیل (1640) کو مقامی لوگوں میں مقبولیت حاصل تھی، پائندہ خیل کی اولاد نے مقامی آبادی پر اثر و رسوخ بڑھایا اور ایک سیاسی ریاست کی بنیاد رکھی نوابوں کی اس ریاست پر کئی سالوں تک نواب اورنگزیب خان اور ان کے بیٹے نواب شاہ جہاں خان نے حکومت کی۔
انگریزوں نے 1897 میں دیر کی حدود کا تعین کیا لیکن ان کے جانے کے بعد اسے ایک علیحدہ ریاست کا درجہ حاصل ہوا۔ دیر کا 1960 میں قبائلی ایجنسی کے طور پر پاکستان سے الحاق ہوا اور 1969 میں ایک ضلع کے طور پر خیبر پختونخوا میں ضم ہو گیا۔
برصغیر میں برطانوی حکومت کو خطے کا کنٹرول سنبھالنے میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس کہانی کا انکشاف برطانیہ کے وزیر اعظم سرونسٹن چرچل نے بھی اخباری کالموں اور اپنی کتاب ’دی اسٹوری آف مالاکنڈ فیلڈ فورس‘ میں کیا ہے۔
“چرچل نے ایک فوجی افسر کے طور پر اس وقت علاقے کا دورہ کیا جب مالاکنڈ کی لڑائی پختہ ہو چکی تھی کیونکہ اس نے مالاکنڈ کے محاصرے اور پشتون قبائل کے خلاف مہم کوسیاحوں اور مورخین کے لیے اپنی کتاب ” as a period of significant transition“ میں بیان کیا ہے۔ علاقے کی کھدائی کے دوران برآمد ہونے والے نوادرات اور آثار دیر چکدرہ میوزیم میں رکھے گئے ہیں جونہ صرف ایک عظیم کارنامہ ہیں بلکہ دیر کی صدیوں پرانی تاریخ اور ثقافت کو ظاہر کرتے ہیں۔
محب گل نے کہا کہ دیر کے اس وقت کے پولیٹیکل ایجنٹ راحت اللہ خان جرال نے 1970 کی دہائی میں دیر میوزیم کی تعمیر کے لیے 250,000 روپے مختص کیے تھے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے 490,000 روپے کی اضافی رقم ملاکنڈی پتھرکےساتھ عجائب گھر کی توسیع اور تزئین و آرائش کے لیے دی گئی تاکہ مقامی لوگوں کی طاقت اور متحرکیت کو ظاہر کیا جا سکے۔
اس میوزیم میں 2,200 سے زیادہ قدیم نمونے رکھے گئے ہیں جن میں گندہارا تہذیب کے 1444 نمونے شامل ہیں جن میں لارڈ بدھا کے مجسمے اور 2,000 سال پرانے بدھ مت کی فریسکو پینٹنگز کی باقیات ہیں جو حال ہی میں سوات میں ابا صاحب چینہ میں کھدائی کے دوران دریافت ہوئی ہیں۔
چیٹ پیٹ اور اندن ڈھیری قدیم آثار قدیمہ کے محفوظ مقامات ہیں: وہاب شاہ
آرکیالوجی اینڈ میوزیم کے کیوریٹر میاں وہاب شاہ نے بتایا کہ یہ فن پارے اندن ڈھیری، چیٹ پیٹ، باگھراجئی، بمبولائی، جبگئی، شالیزار، راموڑہ، تری بانڈہ، ماچو، املوک درہ، ناصفہ، دم کوٹ، باجوڑ اور تالاش ، دیر، مالاکنڈ، بلامبٹ، تیمر گرھ، شملائی قبریں، عنایت قلعہ، شاہ ڈھیری دم کوٹ، گمباتونا، جندول، مٹکنی اور شالکندی کے مقامات سے برآمد ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چیٹ پیٹ اور اندن ڈھیری قدیم آثار قدیمہ کے محفوظ مقامات ہیں اور گمباٹونا اور چرچل پیکٹ کثرت سے دیکھنے والے مقامات ہیں۔
صدیوں پرانی تہذیب اور ثقافت کی تاریخ کو ظاہر کرتے ہوئے، یہ علاقہ اب صحت، تعلیم اور دیگر شہری سہولیات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ جدیدیت کے سفر پر گامزن ہے۔
خیبرپختونخوا ایجوکیشن کے انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ (آئی ایم یو) کے ترجمان نے بتایاکہ آج دیر لوئر اور دیر اپر اضلاع میں رجسٹرڈ پرائمری، مڈل، ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکولوں کی کل تعداد 2,538 ہے جن میں 583,678 طلبہ اور 20,348 اساتذہ شامل ہیں، مالی سال 13-2012 کے دوران سکولوں کی یہ تعداد 1,559 تھی جس میں 445,155 طلبہ اور 6,479 اساتذہ تھے۔
صحت کی سہولیات میں کبھی پیچھے رہنے کے بعد اس علاقے میں اب دیر خاص، مایار، لال قلعہ، منڈا، تالاش، براول، پترک اور دیر بالا واڑی میں کیٹیگری بی اور کیٹیگری سی اسپتال ہیں۔