بارود بھرے موبائل فون پھٹنے کا تو ہم 18 برس سے سنتے آ رہے ہیں۔ وہ حرکت بھی اسرائیل نے ہی کی تھی۔ البتہ 18 اور 19 ستمبر کو لبنان میں بیک وقت ہزاروں پیجرز اور واکی ٹاکی پھٹنے کے بعد سے ہر ڈیجیٹل آلہ سانپ جیسا لگ رہا ہے۔
ٹیکنالوجی بھلے تعمیری ہو کہ تخریبی۔ اس کا مثبت یا منفی استعمال کسی ایک فرد، ادارے اور ملک سے شروع ہوتا ہے اور پھر پھیلتا چلا جاتا ہے۔ مثلاً ہزار کوشش کے باوجود امریکا ایٹم بم کا نسخہ دوسروں کے ہاتھ لگنے سے صرف ڈیڑھ برس تک ہی روک پایا۔ سنہ 1960 کی دہائی میں ویتنام کی جنگ کے دوران پینٹاگون انٹرنیٹ استعمال کر رہا تھا۔آج یہ ہر ماجھے ساجھے کی جیب میں پڑا ہے۔
جنگی صلاحیت والے ڈرونز امریکا نے متعارف کروائے۔ آج 20 سے زائد ممالک یہی کام کر رہے ہیں۔ میزائل ٹیکنالوجی اور سائبر جاسوسی آلات کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس وقت آرٹیفیشل انٹیلیجینس بھی اسی دور سے گزر رہی ہے۔
اسرائیل نے لبنان میں ریڈیو سگنلز اور بیٹری استعمال کرنے والے آپ کے اور میرے خریدے ہوئے آلات کو جس طرح ہتھیار میں بدل دیا۔ اب یہ سلسلہ موساد تک رکنے والا نہیں۔ جس طرح سسٹمز کی ہیکنگ پر کسی ایک فرد، ادارے یا ریاست کی اجارہ داری ممکن نہ رہ سکی۔
جب آپ کا اینڈرائیڈ یا آئی فون، اسمارٹ ٹی وی، اسمارٹ گھڑی، لیپ ٹاپ یا اس کا کیمرا یا کوئی بھی ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپ آپ ہی سے غداری کرنے لگے اور آپ کا بیڈ روم بیڈ روم نہ رہے تو پھر گھبرانا نہیں بنتا۔ اس کا توڑ سوچنا بنتا ہے۔
میں آج کتنے قدم چلا، میں نے کیا کھایا، کس سے کیا باتیں کیں، کتنی دیر خاموش رہا، نیٹ فلکس پر کیا دیکھا، پورنو ویب سائٹس کا کب کب دورہ کیا، کون کون سی سیلفی، تصویر، آڈیو، ویڈیو یہ فرض کر کے ڈلیٹ کر دی کہ اب کسی کے ہاتھ نہیں لگ سکتی۔ اس اندھے یقین کے ساتھ واٹس ایپ پر جانے کیا کیا لکھ کے مٹا دیا کہ اسے میرے سوا کوئی نہیں پڑھ سکتا۔
یہ سب وہ دھوکے ہیں جو ہم خود کو ہمہ وقت دیے جا رہے ہیں۔ مجھے تو یہ بھی کبھی نہیں معلوم ہو سکتا کہ میری زندگی کا ایک ایک لمحہ ڈیٹا کی شکل میں کس کس کے پاس جمع ہو رہا ہے اور کب یہ ڈیٹا خنجر بن کے مجھے نفسیاتی و جسمانی طور پر گھائل کر دے۔
جن مہنگے درآمدی آلات کو ایجنسیاں میری جاسوسی کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ یہی آلات ان ایجنسیوں کا ڈیٹا بھی تو ان تک پہنچا رہے ہوں گے جن سے یہ آلات خریدے یا تحفتاً وصول کیے گئے۔
روانہ ہوں میں اک سائے کے پیچھے
مرے پیچھے کوئی سایہ رواں ہے (احمد نوید)
کبھی کہا جاتا تھا کہ سوویت یونین کی کیمونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری کے دفتر کے گرین فون پر صرف وائٹ ہاؤس سے ہی ایمرجنسی میں رابطہ ہو سکتا ہے یا پھر صدرِ امریکا ہنگامی طور پر روسیوں سے بات کر سکتا ہے۔ اس ہاٹ لائن کی خوبی یہ بتائی جاتی تھی کہ اس پر ہونے والی گفتگو کوئی تیسرا نہیں سن سکتا۔
ہم نے بس ہاٹ لائن کے بارے میں سنا ہی سنا تھا۔ مگر حقیقی دنیا میں یہ دیکھا کہ 29 مئی 1999 کی کارگل جنگ کے دوران چیف آف جنرل اسٹاف جنرل عزیز کی بیجنگ میں موجود چیف آف آرمی اسٹاف پرویز مشرف سے کانفیڈینشل گفتگو کا مکمل ٹرانسکرپٹ معہ آڈیو ریکارڈنگ وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے وزیرِ اعظم نواز شریف کو بھجوا دیا۔
پی آئی اے نے سنہ 2004 میں ٹیکساس کی سافٹ ویئر ڈیٹا مینجمنٹ کمپنی سیبر کو اپنا ڈیجیٹل آپریشن آؤٹ سورس کر دیا۔ سیبر دنیا کے 160 ممالک کا ایوی ایشن ڈیٹا مینیج کر رہی ہے۔ کوئی یقین سے کہہ سکتا ہے کہ یہ ڈیٹا صرف سیبر تک ہی محدود رہتا ہے؟
میں نے کب ٹکٹ خریدا، میری فلائٹ اور سیٹ نمبر کیا ہے۔ یہ سب خبر ٹیکساس کی ایک عمارت میں بیٹھے کسی اہلکار کو ہے۔ اگر کسی وی وی آئی پی مسافر کی نقل و حرکت کی یہ تفصیل کسی دشمن کے ہتھے چڑھ جائے تو؟
یکم اکتوبر 2021 کو وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں کہا کہ ایف بی آر پر ماہانہ 71 ہزار سائبر حملے ہوتے ہیں۔ صرف اس برس (سال 2021) ایف بی آر کا ریکارڈ ہیک کرنے کی 3 بھرپور کوششیں ہوئیں۔ چنانچہ سسٹم عارضی طور پر معطل کرنا پڑا۔ (اگست 2022) ایف بی آر کے ڈیٹا پر ایک اور بھرپور حملہ ہوا۔
اسی طرح سنہ 2023 میں نادرا سسٹم سے مبینہ طور پر 27 لاکھ شہریوں کا ڈیٹا ہیک ہوا۔ اس بارے میں اخبار ایکسپریس ٹریبون کے مطابق مارچ 2024 میں نگراں حکومت کو رپورٹ پیش کی گئی۔ یہ رپورٹ سابق قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایت پر ایک جے آئی ٹی نے تیار کی تھی۔
انٹرنیٹ سرگرمیوں کا آڈٹ کرنے والی ایک موقر تنظیم سٹیزن لیب نے سنہ 2013 کی ایک رپورٹ میں بتایا کہ انٹرنیٹ ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان میں نیٹ سویپر اور فن فشر سسٹمز منگوائے گئے ہیں۔
12 دسمبر 2018 کو کینیڈین کمپنی سینڈ وائن سے ڈیپ پاکٹ انسپکشن ٹیکنالوجی مانیٹرنگ سسٹم کے حصول کے لیے ساڑھے 18 ملین ڈالر کا معاہدہ ہوا۔ اس پر پاکستان میں سینڈوائن کی نمائندہ ’ان باکس بزنس ٹیکنالوجی لمیٹڈ‘ اور پی ٹی سی ایل نے دستخط کیے۔ سینڈ وائن نے ایسا ہی سسٹم مصر، شام اور ترکی کو بھی فراہم کیا۔
صحافتی ذرائع کے مطابق سینڈ وائن فرانسسکو پارٹنرز کی پورٹ فولیو کمپنی ہے اور فرانسسکو پارٹنرز نے 2 اسرائیلی کمپنیوں این ایس او اور سرکلز سے بھی اشتراک کیا ہوا ہے۔ این ایس او نے پیگاسس سسسٹم ڈویلپ کیا۔ اس کے ذریعے کسی بھی موبائل فون سے ہر طرح کا ڈیٹا مالک کے علم میں لائے بغیر اور کوئی نشان چھوڑے بغیر ہیک ہو سکتا ہے۔
شاید آپ کو چند برس پہلے ایران کے خلاف اسرائیل اور امریکا کا مشترکہ ’آپریشن اولمپک گیمز‘ یاد ہو جس کے تحت اسٹکس نیٹ وائرس کو ایران کے جوہری مرکز نتانز کے کمپیوٹرز میں داخل کر دیا گیا اور اس نے 5 ہزار میں سے ایک ہزار سینٹری فیوجز ناکارہ کر دیے۔ اس پیمانے پر سائبر ہتھیار پہلے کبھی استعمال نہیں ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ اس سائبر آپریشن کے سبب ایران کا جوہری پروگرام 5 سے 6 برس پیچھے چلا گیا۔ نتانز کا بیشتر جوہری ڈیٹا بھی اسرائیل کے ہاتھ لگ گیا۔ اس کا حوالہ بعد میں وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے ایران سے متعلق اپنی ایک ڈیجیٹل پریزنٹیشن میں بھی دیا۔؎
اب لبنان میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ سائبر ہتھیاروں کی مار کتنے نچلے لیول تک پہنچ گئی ہے۔ یہ واردات مستقبل کی عسکری فلم کا ایک ٹریلر ہے۔
اپنے شہریوں کی پل پل نقل و حرکت پر پوری توجہ شاید قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے بے حد ضروری ہو۔ مگر اب تو مجھ جیسے وہمیوں کو اپنے قومی اداروں اور تنصیبات کی ڈیجیٹل سیکیورٹی کے مستقبل پر تشویش لاحق ہے۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ناپسندیدہ ولاگز ، زہریلی ٹوئٹس، ڈیپ فیک تصویر، مسخ معلومات کا پھیلاؤ اور اداروں اور عوام کے درمیان پروپیگنڈے کے ذریعے خلیج بڑھانے کی کوشش ہی دراصل سائبر ٹیررازم ہے۔
امید ہے کہ اسرائیل نے لبنان میں کمیونیکیشن آلات اور ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ جو کیا۔ اس سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ سائبر ٹیررازم دراصل کس چڑیا کا نام ہے؟
21 ویں صدی میں کوئی بھی انتظام فول پروف نہیں ہو سکتا۔ یہ ترکیب صرف گاہک پھنسانے کا جھانسہ ہے۔ اصل فول وہ ہے جو آج کی دنیا میں فول پروف کی اصطلاح پر سنجیدگی سے یقین کرے۔
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
( جون ایلیا )