یہ وہ زمانہ نہیں جب آدمی جمہوری قدروں کی بات کرے، یہ وہ عہد نہیں جب انسان اپنے اختیارات خوش دلی سے دوسروں کو تفویض کر دے۔ یہ وہ دور نہیں جب انسان دوستوں پر اعتبار کرے، یہ وہ وقت نہیں جب کوئی اپنے ہم عصروں کو توقیر دے۔
اس عہد بے وفا میں جو شخص بھی دوسروں کی اس حد سے زیادہ تکریم کرے گا، دوسرے اس کو ختم کر دیں گے، اس کی دانش، حلم اور علم کو بزدلی گردانیں گے۔ اس کے تدبر کا تمسخر اڑائیں گے۔ اس کی وسعت قلبی سے اس وقت تک ناجائز فائدہ اٹھائیں گے جب تک وہ حلیم شخص ہاتھ میں گنڈاسا لیے میدان میں نہ اترآئے، اپنے اختیارات کا پوری قوت سے استعمال نہ کرے۔
جب ایسا ہوتا ہے پھر سب راہ راست پر آ جاتے ہیں۔ قانون بھی موافق ہو جاتا ہے، قانون دان بھی ہم خیال ہو جاتے ہیں اور منصفین کرام میں بھی اختلاف کی جرات تمام ہو جاتی ہے۔
یہ تاریخ کا وہ سبق ہے جو قاضی کوسمجھنے میں دیر تو لگی ہے مگر ابھی اتنی دیر بھی نہیں ہوئی ہے کہ اندھیر ہی ہو جائے۔
موجود چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عہد میں سپریم کورٹ کی جانب سے وہ فیصلے ہوئے ہیں جن کا تاریخ بہت عرصے سے منتظر تھی۔ بہت سے فیصلے تھے جن کی بنا پر وطن عزیز کی تاریخ ابہام کا شکار تھی، جن کی وجہ سے نہ حق اور باطل میں تفریق ہو رہی تھی نہ درست غلط میں امتیاز ہو سکتا تھا۔ نہ تاریخ کا سفر آگے بڑھ سکتا تھا نہ وقت کا پہیہ ماضی کی جانب موڑا جا سکتا تھا۔
انصاف میں تعطل ہو تو وہ بے انصافی پر منتج ہوتا ہے۔ یہاں مسئلہ کسی ایک شخص سے بے انصافی کا نہیں تھا۔ تاریخ کے باب کے باب سیاہ تھے اور کسی میں اس سیاہی کو کالک کہنے کی جرات نہیں تھی۔ خود ساختہ خوف کے مارے لوگوں نے سارے ملک کو کنفیوز کر رکھا تھا۔ بنیادی فیصلے تھے مگر بنیاد میں ہی ٹیڑھ پن آ جائے تو پھر دیوار درست نہیں بن سکتی۔ یہ معاملہ ہماری ساری عدالتی تاریخ کا رہا ہے۔ نہ غلط کو غلط بتایا گیا نہ درست کو درست کے طور پر اپنایا گیا۔ یاد رکھیں! بڑے فیصلے بین السطور نہیں ہوتے، ان کے لیے واشگاف اعلان کرنا پڑتا ہے، تاریخ کو آئینہ دکھانا پڑتا ہے۔
کیا کسی نے سوچا تھا کہ اس ملک میں بھٹو شہید کیس کا فیصلہ ہوگا۔ اس بات کو زمانے گزر گئے۔ ضیا الحق بھی طیارہ حادثے میں کام آ گئے۔ جمہوری حکومتیں بھی باریاں لگا کر چلی گئیں۔ مشرف کا مارشل لا بھی گزر گیا۔ عمران کا عفریت بھی آیا اور جیل میں قید ہو گیا مگر بھٹو کے کیس کے متعلق ابہام قائم رہا۔ کسی میں اتنی جرات نہ تھی کہ کھل کر اپنی غلطیاں تسلیم کرے، اپنے گریبان میں جھانکے۔ یہ اعزاز قاضی صاحب کی سپریم کورٹ ہی کو جاتا ہے کہ انہوں نےا س کیس کے حوالے سے ابہام کو ختم کیا اور اپنی عدالتوں کی غلطی کو تسلیم کیا۔ اس فیصلے سے نہ بھٹو زندہ ہوئے نہ ضیا الحق کے دور استبداد کی اذیت ختم ہوئی مگر اتنا ہوا کہ تاریخ کو درست کیا گیا۔ سچ بولنے کی اور اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی روش کا آغاز کیا گیا۔
جنرل مشرف کے حوالے سے وقار سیٹھ کا فیصلہ اتنا تاریخی تھا کہ پھر جج صاحب ہی تاریخ ہو گئے۔ ان کی خواہش تھی کہ ڈکٹیٹر کے جسد کو ڈی چوک پر تین دنوں کے لیے لٹکایا جائے۔ آئین شکنوں کو یہی سزا دینا چاہیے۔ جنرل صاحب کا انتقال ہو گیا۔ حالات اتنے بدل گئے کہ ان کی تدفین کی جگہ بھی پوشیدہ رکھی گئی۔ ڈر تھا کہ یہ نہ ہو، تاریخ میں کوئی سر پھرا آئے اور یہ کہہ دے کہ اس ڈکٹیٹر کو قبر سے نکالو اور اس کے ڈھانچے کو ڈی چوک پر لٹکاؤ۔ قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں سپریم کورٹ نے اس تاریخی قضیے کو نمٹا دیا۔ پھانسی تو نہیں دی مگر آئین شکن کے چہرے پر کالک لگی رہنے دی۔ تاریخ کا ابہام ختم ہوا۔ درست کا تعین درست کے طور پر ہوا اور غلط کی واضح نشاندہی کر دی گئی۔
قاضی کی عدالت کا تیسرا بڑا حکم چیف جسٹس کے اختیارات میں کمی کرنا تھا۔ کئی برس گزر گئے تھے، ایسے چیف جسٹس آئے جن کے آنے کا عندیہ جاوید ہاشمی نے دو ہزار چودہ کے دھرنے میں دیا تھا۔ یہ سب ہم خیال تھے اور لاہوری ہتھوڑا گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔ آئین کو گھر کی باندی سمجھتے تھے۔ عمران خان کے عشق میں مبتلا تھے۔ ان کے فرائض میں شامل تھا کہ عمران خان پر آنچ نہ آئے چاہے انصاف کے تمام قاعدوں کو پامال کیوں نہ کرنا پڑے۔
ہم سب نے دیکھا کہ برس ہا برس گزر گئے نہ عمران خان کے خلاف کوئی فیصلہ آیا نہ کسی اور جج کے سامنے عمران خان کا کوئی کیس لگا۔ نظام انصاف عمران خان کی زر خرید لونڈی کی طرح کام کرنے لگا۔ اس کی بنیادی وجہ بینچ بنانے کا وہ اختیار تھا جو صرف چیف جسٹس کے پاس تھا۔ ثاقب نثار سے بندیال تک ہر چیف جسٹس نے عمران خان کے دفاع کے لیے بینچ بنائے، انصاف کے لیے نہیں بلکہ تحریک انصاف کے لیے فیصلے کیے۔ قاضی صاحب نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنا یہ اختیار ختم کیا کیونکہ وہ جمہوری روایات پر یقین رکھتے ہیں۔
لیکن یہاں جمہوری روایات پر یقین رکھنے والوں کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ اس لیے تین کے بینچ میں دو ہم خیال مل گئے اور چیف جسٹس کے خلاف محاذ بنا کر فیصلے دینے شروع کر دیے۔ ایسا کرنے والے یہ بھول گئے کہ انصاف کی سب سے بڑی مسند پر وہ چیف جسٹس اب بھی براجمان ہے۔ تو وہی ہوا جو ہونا تھا۔ پریکسٹس اینڈ پروسیجر بل میں ترمیم کے بعد نئے آرڈیننس کے تحت یہ اختیارات چیف جسٹس کو واپس ملے گئے۔ اب وہی قاضی جو اپنے ہم عصروں کو احترام دیتا تھا اس پر ان کی چالبازیاں کھل چکی ہیں۔ اب توقع یہ ہے کہ قاضی دوبارہ غلطی نہیں دوہرائے گا اور اب لوگوں کو قاضی کا نیا روپ نظر آئے گا ۔ اس دفعہ ہم خیال گروپ پکار اٹھے گا کہ ظالمو! اصل میں قاضی اب آ رہا ہے۔